امریکہ کے صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ امریکہ، ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے سے متعلق دوبارہ سے مذاکرات شروع کرنے میں دلچسپی اس لیے رکھتا ہے تا کہ ایسی غلطیاں نہ کی جائیں جن سے مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال مزید خراب ہو۔
میونخ سلامتی کانفرنس سے ورچوئل خطاب کے دوران امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انہیں شفافیت اور بہتر بات چیت کے ذریعے اسٹریٹجک غلط فہمیوں اور غلطیوں کو کم سے کم سطح پر لانا ہو گا۔
بائیڈن کا بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے کہ جب ایران کے وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف نے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ تہران جوہری معاہدے کی خلاف ورزی اس صورت میں بند کرنے کو تیار ہوگا کہ اگر امریکہ ان کے ملک پر عائد پابندیاں اٹھا لے۔
جواد ظریف کا ایک ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ اگر امریکہ غیر مشروط اور قابل عمل طور پر وہ تمام پابندیاں اٹھا لے جو سابق صدر ٹرمپ نے ایک بار نافذ کیے جانے کے بعد دوبارہ نافذ کی تھیں۔ تو ایران تمام ایسے اقدامات جو رد عمل میں کیے گئے تھے واپس کر لے گا۔
صدر جو بائیڈن کی جانب سے 2015 کے معاہدے میں واپسی کا اعلان سابق صدر ٹرمپ کے ایران کو مکمل دباؤ کے ذریعے تنہا کر کے اس کے جوہری پروگرام کو کمزور کرنے کی پالیسی کی نفی ہے۔
جو بائیڈن نے کہا کہ جوہری پھیلاؤ کو روکنے کے لیے محتاط سفارت کاری اور ہمارے درمیان تعاون بہت ضروری ہے تاکہ غلطیوں سے بچا جا سکے۔
ان کے بقول اسی لیے وہ مذاکرات دوبارہ سے شروع کرنے کے خواہاں ہیں۔
بائیڈن نے اس بات کا بھی وعدہ کیا کہ امریکہ اپنے یورپی حلیفوں کے ساتھ قریبی تعاون کے ذریعے ایران کی جانب سے مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال کو خراب کرنے کے اقدامات کے خلاف کام کرنے کو تیار ہے۔
واضح رہے کہ 2018 میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے نکل جانے کے بعد ایران پر پابندیاں نافذ کر دی تھیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے تھے۔
ٹرمپ نے ایران پر غیر قانونی بیلسٹک میزائل پروگرام چلانے اور خطے میں دہشت گردی کی پشت پناہی کے الزامات لگاتے ہوئے معاشی پابندیاں عائد کی تھیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکہ کے علاوہ جرمنی نے مشترکہ طور پر اوباما انتظامیہ کی جانب سے ایران کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی تصدیق کی تھی۔
اس معاہدے کے تحت ایران معاشی ریلیف کے بدلے اپنے جوہری پروگرام کو بڑے پیمانے پر محدود کرنے پر راضی ہوا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
بعض ناقدین کی رائے ہے کہ صدر بائیڈن کو جوہری معاہدے میں واپس شمولیت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک 'فاؤنڈیشن آف ڈیفنس ڈیموکریسی' سے منسلک بہنام بن تلیبلو کا کہنا ہے کہ 2021 کا مشرقِ وسطیٰ اب 2015 کے مشرقِ وسطیٰ جیسا نہیں رہا جب یہ معاہدہ تشکیل دیا گیا تھا اور مشرقِ وسطیٰ نہ ہی 2018 جیسا ہے جب امریکہ اس معاہدے سے الگ ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی بہت اہم ہے کہ ایران اس معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ ایران ان اقدامات کے ذریعے وقت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تاکہ بائیڈن انتظامیہ اس معاہدے میں جلد از جلد واپس آئے اور پابندیوں میں کچھ نرمی حاصل ہو سکے۔
معاہدے میں واپسی کے اعلان کے ساتھ ساتھ بائیڈن انتظامیہ نے دو اور ایسے اقدامات کیے ہیں جو ٹرمپ کی پالیسیوں کے برعکس ہیں۔
SEE ALSO: امریکہ جوہری معاہدے پر ایران سے مذاکرات کے لیے تیاربائیڈن انتظامیہ نے ٹرمپ کے ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ سے لگائے جانے کے عزم کو واپس لیا ہے۔ اس کے علاوہ بائیڈن انتظامیہ نے امریکہ میں اقوامِ متحدہ کے لیے تعینات ایران کے سفارت کاروں پر نقل و حرکت کی پابندی میں کچھ چھوٹ دی ہے۔
ان دو اقدامات پر اسرائیل نے تنقید کی ہے جس کا کہنا ہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے پُر عزم ہے اور وہ اس سلسلے میں امریکہ سے رابطے میں ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ امریکہ ایران پر لگائی گئی پابندیاں رواں ماہ 23 فروری تک ہٹانا شروع کر دے۔ ورنہ وہ بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی کے معائنہ کرنے والے ماہرین کو اس کی جوہری تنصیبات کے معائنے سے روک دے گا۔