|
امریکہ کے صدر لنڈن بی جانسن نے جو اپنے نام کے مخفف ’ایل بی جے سے‘ معروف ہیں۔ مارچ 1968 میں وائٹ ہاؤس میں اپنے آخری ایام کے دوران اوول آفس میں آئے۔ وہاں انہوں نے قوم سے خطاب کیا اور ابتدا ہی میں امریکی عوام کو بتایا کہ ’’آج رات میں آپ سے ویتنام اور جنوب مشرقی ایشیا میں امن سے متعلق بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
یہ وہ دور تھا جب امریکہ برسوں سے ویتنام میں جنگ لڑ رہا تھا۔ جانسن کو امریکہ کی اس تنازع میں شمولیت اپنے پیش رو مقتول صدر جان ایف کینیڈی سے ورثے میں ملی تھی۔ ویتنام میں امریکہ نے زبردست ایڈوائزری مشن کا آغاز کیا تھا جس کے تحت ابتدا میں صرف مدد فراہم کی جاتی تھی اور بعد میں امریکہ براہ راست جنگ میں شامل ہو گیا جس میں 58 ہزار امریکی فوجی اہلکاروں کی جانیں گئیں۔ اس جنگ میں شمالی اور جنوبی ویتنام کے لاکھوں سویلین اور فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
جانسن نے اس شام اعلان کیا تھا کہ وہ شمالی ویتنام میں امریکہ کے زیادہ تر فضائی حملے روک رہے ہیں۔ یہ بڑی خبر تھی۔ تاہم ان کی یہ تقریر اس تہلکہ خیز اعلان کی وجہ سے یاد کی جاتی ہے جو آگے جا کر انہوں نے کچھ یوں کیا تھا کہ ’’میں آپ کے صدر کے طور پر ایک اور مدت کے لیے پارٹی کی نامزدگی کی خواہش نہیں رکھتا ہوں اور نہ ہی اسے قبول کروں گا۔‘‘
وائٹ ہاؤس کے اوول آفس کے اسی کمرے میں 58 سال بعد صدر جو بائیڈن نے بھی یہ اعلان کیا کہ انہوں نے ایک اور مدت کے لیے الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے اسباب بھی بیان کیے۔
چوبیس جولائی کو اپنے خطاب میں صدر بائیڈن نے کہا کہ ’’مجھے معلوم ہے کہ عوامی زندگی میں اب بھی برسوں کے طویل تجربے کا وقت گیا نہیں اور اس کا مقام بھی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی نئی آوازوں، تازہ آوازوں۔۔جی ہاں نوجوانوں کی آواز کا وقت بھی آ پہنچا ہے۔"
انہوں نے اپنی انگلی شاہ بلوط کی لکڑی سے بنے روزویلٹ ڈیسک پر جما کر رکھتے ہوئے اس جملے کے آخری حصے پر زور دیا۔
ان کے الفاظ باعثِ حیرت نہیں تھے۔ بائیڈن پر ان کی جماعت ڈیمو کریٹ پارٹی کا بہت دباؤ تھا۔ اپنے خطاب سے قبل اتوار کو وہ سوشل میڈیا پر پہلے ہی انتخابی دوڑ سے دست برداری کا اعلان کر چکے تھے۔
حالاں کہ صدارتی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے بائیڈن کو درکار ڈیموکریٹ ڈیلی گیٹس کی حمایت حاصل تھی۔ اس کے برعکس جانسن نے پارٹی کی پرائمریز میں اپنی جماعت میں پائے جانے والے اختلاف کی وجہ سے بہت پہلے ہی خود کو انتخابی عمل سے علیحدہ کر لیا تھا۔
بائیڈن کی طرح جانسن کی مقبولیت بھی اپنے دورِ صدارت کے آخری برس میں بہت کم ہو گئی تھی اور اختلافات کی شکار ان کی پارٹی نے آخر کار ان کے نائب صدر کو اپنا امیدوار بنایا تھا۔
’’میں اپنے ملک کی قیادت کے لیے تیار ہوں‘‘ 1968 کے ہنگامہ خیز نیشنل کنونشن میں نائب صدر ہیوبرٹ ہمفری نے یہ اعلان کیا تھا۔
اسی برس نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں ووٹرز نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا۔ اس لیے انہوں نے ہمفری کے بجائے ری پبلکن امیدوار رچرڈ نکسن کو چنا تھا۔
اس بار ڈیمو کریٹک بڑی تیزی سے اپنی موجودہ نائب صدر کے ساتھ متحد ہو کر کھڑے ہوئے ہیں۔
’’اس دوڑ میں ہوا کا رُخ تبدیل ہو رہا ہے‘‘ صدر بائیڈن کی جانب سے بظاہر اپنی جانشین قرار دیے جانے کے چند دن کے بعد ہی سے نائب صدر کاملا ہیرس پُرہجوم انتخابی جلسوں میں یہ بات کئی بار دہرا چکی ہیں۔
کاملا ہیرس کی خود اعتمادی نے ڈیموکریٹس میں ایک نئی روح پھونک دی ہے اور صدارتی دوڑ میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مقابلہ اب قریب قریب ہو گیا۔
اس سے پہلے یہ بہت بڑا فرق معلوم ہو رہا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اس کے باوجود مسلسل تیسری بار ری پبلکن پارٹی کی صدارتی نامزدگی حاصل کی ہے کہ انہیں اپنے بزنس ریکارڈ میں جعل سازی کے کئی معاملات میں مجرم قرار دیا جا چکا ہے۔
یونیورسٹی آف ورجینیا میں پریزیڈینشل اسٹڈیز کے پروفیسر گویان مکی ہیرس کی مہم کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’ہمفری کے برعکس، یہ زیادہ قابل ہیں، کم از کم فی الوقت انہوں نے خود کو غیر مقبولیت سے علیحدہ کر لیا ہے۔ اپنی الگ سیاسی شناخت بنانے کے لیے اور الیکشن کا رُخ تبدیل کرنے کے لیے۔‘‘
اکیاسی سالہ بائیڈن کے مقابلے میں کوئی بھی 59 سالہ ہیرس پر ایسا کوئی ٹھوس اعتراض نہیں کر سکتا کہ بڑھتی عمر کے باعث ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہور ہی ہے یا وہ عمر میں اضافے کے باعث آنے والے ضعف کی وجہ سے ایک اور مدت مکمل نہیں کر پائیں گی۔
گزشتہ ماہ 'ایل بی جے' صدارتی لائبریری میں بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ ٹیکساس کے دیہی علاقوں کے اسکول ٹیچرز سے لے کر سینیٹرز تک کے لیے کی گئی آنجہانی صدر کی عوامی خدمات کے دیرینہ معترف ہیں۔ اس کے بعد صدر و نائب صدر نے اس بات کا تذکرہ بھی کیا تھا کہ جانسن کا فلسفۂ سیاست بہت سادہ تھا: ایک عظیم معاشرے میں،’’ کوئی بھی پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔‘‘
شہری اور ووٹنگ کے حقوق پر قوانین، سوشل ویلفیئر پروگرامز، اسکولوں کے لیے فیڈرل فنڈنگ اور آلودگی کی روک تھام کے لیے بنائے گئے چند ابتدائی قانون جانسن کی گریٹ سوسائٹی کی بڑی کامیابیاں تھی۔
لیکن ویتنام میں ایک ناقابلِ فتح جنگ کے لیے کوششوں میں ناکامی ان کامیابیوں پر حاوی ہو گئی۔ تاہم حالیہ برسوں میں مؤرخین کے موقر حلقوں نے امریکی صدور کی جو درجہ بندیاں کی ہیں ان میں جانسن جیمز مونرو اور ووڈرو ولسن سے آگے بڑھ چکے ہیں۔
امریکہ کے 46 ویں صدر بائیڈن افغانستان سے ہنگامہ خیز انخلا کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں کے لیے اقدامات اور امریکی صنعتی شعبے میں نئی روح پھونکنے کے حوالے سے یاد رکھے جائیں گے۔ بائیڈن کی لیگیسی میں یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ میں ان کی نامکمل سفارتی کاوشیں بھی شامل ہیں۔
مکی نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ کامیابیاں بڑھتی ہیں یا نہیں اور کیا ان کی دور صدارت کی محدودات پر غالب آتی ہیں۔ اسی سے ان کے تاریخی مرتبے اور امریکی صدور کی درجہ بندی میں ان کے مقام کا تعین ہو گا۔‘‘
بائیڈن کا فیصلہ امریکی تاریخ کا ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے کیوں کہ وہ کسی اسکینڈل یا پالیسی کی ناکامی کے باعث صدراتی دوڑ سے دست بردار نہیں ہو رہے ہیں۔ ایک اعتدال پسند بائیں بازو کے تحقیقی ادارے ، تھرڈ ویو کے ایگزیکیٹو نائب صدر برائے پالیسی جم کیسلر کے مطابق ’’یہ فیصلہ لنڈن بی جانسن جیسا نہیں جو 1968 میں ویت نام جنگ کی وجہ سے کیا گیا تھا۔ انہوں (بائیڈن) نے ایک بہت مضبوط معیشت کے ساتھ اور ایک ایسے موقع پر الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے جب امریکہ در حقیقت بہت اچھے حال میں ہے۔‘‘
SEE ALSO: امریکہ کا سب سے ذہین صدر کون؟مکی کا کہنا ہے کہ نام نہاد غیر مؤثر امیدوار کے طور پر بائیڈن ’’میدان میں نہیں ہیں۔‘‘ لیکن پریزیڈنشنل اسٹڈیز کے پروفیسر بیان کرتے ہیں کہ بائیڈن کو غیر مؤثر ہونے کا درجہ ملنے سے ’’امیدوار ہونے کے مقابلے میں غالباً اس وقت انہیں صدارتی ذمے داریاں زیادہ بہتر انداز میں ادا کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘
دستبرداری کے اعلان کے بعد جانسن نے کہا تھا کہ وہ اپنی مدت کے بقیہ نو ماہ کے دوران ویتنام میں ’امن تلاش کرنے کی کوشش‘‘ کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے۔
بائیڈن نے دستبرداری کا اعلان کم و بیش پانچ ماہ قبل کیا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے صدر بائیڈن پر تنقید کا سلسلہ برقرار رکھا ہے۔ گزشتہ سنیچر انہوں نے اٹلانٹا میں ایک ریلی سے خطاب میں کہا تھا کہ مقابلے سے باہر ہونے پر صدر کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔ انہیں نے طنزیہ پیرائے میں یہ بھی کہا کہ ڈیموکریٹس نے تختہ الٹ دیا لیکن بائیڈن ’’جانتے ہی نہیں۔‘‘
سن 1968 کے عام انتخابات کی مہم کے دوران نکسن نے بھی جانسن کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جب کہ وہ ان کے مقابل نہیں تھے۔ ری پبلکن امیدوار نے ووٹرز کو باور کرایا تھا کہ ان کے پاس ویتنام جنگ کے خاتمے کا جانسن سے بہتر منصوبہ ہے۔ نکسن نے جانسن پر یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ وہ جرائم اور بے امنی کے باعث پیدا ہونے والی سماجی بے چینی کو روکنے کے لیے مطلوبہ اقدامات نہیں کر سکے۔
آنجہانی مؤرخ وان ڈیوس بورنٹ کے مطابق جانسن کی صدارتی دوڑ سے دست برداری کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ اکثر شدید علیل رہا کرتے تھے اور خاتونِ اول لیڈی برڈ جانسن کو اس بات کا خدشہ تھا کہ اگر ان کے شوہر کو ایک اور مدت ملتی ہے تو زندگی ان کا ساتھ نہیں دے گی۔ جانسن 1973 میں دل کے شاید پانچویں دورے کے بعد 65 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔
صرف بائیڈن اور جانسن ہی ایسے صدور نہیں جنھوں نے ایک بار منتخب ہونے کے بعد ایک اور مدت کے لیے انتخاب نہیں لڑا۔ صدارتی ذمے داریوں سے تھکے ہارے جیمز پوک نے 1849 میں صرف ایک مدت کے بعد عہدہ چھوڑ دیا تھا اور اس کے تین ماہ بعد ان کا انتقال ہو گیا۔
جیمز بیوکینن ایسے وقت میں اپنی گرتی ہوئی صحت کی وجہ سے غیر مقبول تھے جب امریکہ خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بیسیویں صدی میں، کیلون کولج ذاتی پریشانی اور معاشی ابتری کے باعث صدارتی دوڑ سے باہر ہو گئے تھے۔ ہیری ٹرومین نے نامزدگی کے لیے پہلے پرائمری میں غیر متوقع شکست کے بعد عوامی فیصلے کو تسلیم کیا اور نجی زندگی کی طرف واپس چلے گئے۔
SEE ALSO: امریکہ کا ’توشہ خانہ‘: صدر کو ملنے والے تحائف کہاں جاتے ہیں؟جن صدور نے اپنے عہدے کی مدت پوری کی ہو ان کے لیے آزاد دنیا کی قیادت کے بعد نجی زندگی کی جانب لوٹنا آسان نہیں ہوتا۔ جانسن اپنے اقتدار کی بعض علامتیں پیچھے نہیں چھوڑ پائے تھے۔ انہوں نے آسٹن، ٹیکساس میں اپنی ریٹائرمنٹ کے لیے اوول آفس کی ایک نقل تیار کرائی تھی جو ان کی سرکاری صدارتی لائبری میں آج بھی محفوظ ہے۔ جانسن نے اپنے لیے ایک خصوصی طور پر تیار کی گئی لنکن لموزین بھی خریدی تھی جس میں وہ ایک شوفر اور سیکریٹ سروس ایجنٹس کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے۔
بائیڈن کو بھی تادمِ مرگ سیکریٹ سروس کی سیکیورٹی حاصل رہے گی۔ امریکہ کے 46 ویں صدر کے لیے، بطور سینیٹر 50 برسوں پر پھیلے سیاسی کریئر، نائب صدر اور صدر کے اعلی ترین عہدوں پر فائز رہنے کے بعد سب سے مشکل کام تاریخ پر اثرا انداز ہونے کی اپنی صلاحیت سے دست بردار ہونا ہے۔