رسائی کے لنکس

امریکہ کا سب سے ذہین صدر کون؟


ماہرین کےمطابق امریکہ کی تاریخ کے ابتدائی دور کے صدر سب سے زیادہ ذہین تھے۔ (فائل فوٹو)
ماہرین کےمطابق امریکہ کی تاریخ کے ابتدائی دور کے صدر سب سے زیادہ ذہین تھے۔ (فائل فوٹو)

ایک مرتبہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ذہانت کا حوالہ دیتے ہوئے خود کو ’بہت جینئس‘ قرار دیا تھا۔

لیکن سابق صدر ٹرمپ اسکول میں اپنے تعلیمی ریکارڈ منظرِ عام پر لانے سے انکار کرتے آئے ہیں۔اس لیے یہ تو معلوم نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کتنے لائق طالبِ علم تھے۔ البتہ امریکہ کے صدور کی تاریخ پر کام کرنے والی باربرا پیری صدر ٹرمپ کی ذہانت کے بارے میں اپنی ایک رائے رکھتی ہیں۔

باربرا پیری ورجینیا یونیورسٹی کے ملر سینٹر میں ’پریزیڈینشل اسٹڈیز ‘ کی ڈائریکٹر ہیں۔ وہ طویل عرصے سے امریکہ کے صدور کی شخصیت، سیاسی پالیسیوں اور دورِ صدارت کی تاریخ اور حالات و واقعات پر تحقیق و تصنیف کا کام کررہی ہیں۔

صدر ٹرمپ کے دعوے کے بارے میں باربرا پیری کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ کی تاریخ کے سب سے زیادہ ہوشیار صدر ہیں اور ان کی ذہانت اتنی ضرور ہے جو ہوشیاری اور چالاکی کے لیے درکار ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے کئی صدور اپنی ذہانت اور معاملہ فہمی کے باجود شاید ان جیسی ہوشیاری نہیں رکھتے تھے۔

ان کے بقول، صدر ٹرمپ بخوبی جانتے ہیں کہ ہجوم کے سامنے کس طرح بات کرنی چاہیے اور یہ امتیاز ان سے واپس نہیں لیا جاسکتا۔

ذہانت اور عقل و حکمت سیاسی داؤ پیچ سے بالا تر ایک درجہ ہے۔ اس کے لیے مختلف معیارات پر مبنی ذہانت ناپنے کا ایک پیمانہ ’انٹیلی جینس کوشنٹ‘ (آئی کیو) بھی ہے۔ لیکن جب کسی قومی رہنما یا صدر جیسے منصب پر فائز رہنے وال شخص کی ذہانت کی بات کی جائے گی تو کئی دیگر پہلو بھی پیش نظر رکھے جائیں گے۔

ماہرِ نفسیات ڈین سائمنٹن نے 2006 میں آئی کیو لیول، نئے تجربات کے لیے آمادگی اور قوتِ فیصلہ جیسے مختلف پہلوؤں کی مدد سے اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش کی تھی کہ امریکہ تاریخ میں کون سے صدر نابغے یا جینئس کہلانے کے لائق ہیں۔

ذہین صدر کون؟

ڈین سائمنٹن کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق اگرچہ امریکہ کے چھٹے صدر جان کوئنسی ایڈمز کا آئی کیو سب امریکی صدور سے زیادہ تھا۔ ذہانت کے معیار پر ان کا اسکور 175 تھا۔ لیکن سائمنٹن کے مطابق امریکہ کے تیسرے کمانڈر ان چیف اور صدر تھامس جیفرسن مختلف شعبوں میں اپنی کامیابیوں کی وجہ سے جینئس کہلانے کے حق دار ہیں۔

پروفیسر سائمنٹن کے مطابق تھامس جیفرسن ایک عظیم قلم کار تھے۔ دنیا جانتی ہے کہ وہ امریکہ کا اعلانِ آزادی تحریر کرنے والوں میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ وہ ایک عظیم ماہرِ تعمیرات تھے۔ انہوں نے اپنی رہائش گاہ کے علاوہ یونیورسٹی آف ورجینیا کے پہلے کیمپس کی عمارت کا نقشہ بھی بنایا تھا۔ اسی طرح وہ سیاسی مدبر بھی تھے۔ انہوں نے امریکی آئین کی اساس بننے والے کئی سیاسی نظریات پر تفصیل سے لکھا۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں نفسیات کے پروفیسر امریطس ڈین سائمنٹن کا کہنا ہے کہ تھامس جیفرسن بائبل کے بھی عالم تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے زراعت میں بھی کئی نئے طریقے متعارف کرائے۔ ظاہر ہے کہ وہ ایک بہترین سفارت کار اور صدر تو تھے ہی۔ ہر لحاظ سے صدر جیفرسن کی ذہانت غیر معمولی تھی۔

موجودہ دور کے صدر

ڈین سائمنٹن نے امریکی صدور کی ذہانت کا جو جائزہ مرتب کیا ہے اس میں 2006 کے بعد کے صدر شامل نہیں ہیں۔ تاہم امریکہ کی صدارتی تاریخ کی ماہر باربرا پیری فیصلہ سازی، تعلیمی گریڈز، تقاریر اور تحاریر وغیرہ کی بنیاد پر امریکہ کے حالیہ صدور کی عقل مندی و ذہانت کا جائزہ لیا ہے۔

باربرا پیری کا کہنا ہے کہ کسی بھی شخص کی گفتگو بتا دیتی ہے کہ وہ کتنا آزاد فکر ہے۔ یہی معاملہ صدارت کے منصب تک پہنچنے والوں کا بھی ہے۔ ان کی تقریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زبان پر کتنا عبور رکھتے ہیں۔

اسی طرح کیا وہ اپنی پالیسی لوگوں کے سے سامنے رکھنے کا سلیقہ رکھتے ہیں یا نہیں؟ ان کی حسِ مزاح کیسی ہے؟وہ کتنی وضاحت سے اپنا موقف تقریر یا تحریر میں بیان کرتے ہیں؟ فکر اور عمل میں کتنے آزاد ہیں؟ کیا ان کی پالیسیاں ان کے اپنی فکر پر مبنی ہیں یا نہیں؟ ان سوالات کی مدد سے صدور کی شخصیت کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

انہی معیارات پر باربرا پیری کے نزدیک صدر براک اوباما ذہین ترین صدور کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ ہارورڈ یونیورسٹی میں صدر اوباما کہ ساتھی طالب علم بھی یہ اعتراف کرتے تھے کہ ان کے پاس ذہین ترین افراد سے بھی دو ہاتھ آگے کا کوئی منصوبہ ہوتا تھا۔

باربرا پیری کہتی ہیں کہ وہ بہترین پانچ صدور میں براک اوباما اور بل کلنٹن کو شامل کریں گی۔ ان کے بقول، معاملہ فہمی ، تجزیے اور پھر فیصلہ سازی کی جیسی صلاحیت ان صدور میں تھی وہ روشن دماغی کی نشانیاں ہیں۔

ماہرِ نفسیات ڈین سائمنٹن کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہے۔ اس کے ان کے بارے میں کوئی رائے کم کرنا بھی بہت مشکل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ عام طور پر صدور کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پیچیدہ مسائل کو سمجھنے کی کتنی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ کا ابلاغ کے لیے پسندیدہ ترین ذریعہ ٹوئٹر رہا جس پر بہت مختصر تحریر لکھی جاسکتی ہے جس سے کسی کی فکری گہرائی کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔

صدر بائیڈن کی خصوصیت

امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن کے بارے میں باربرا پیری کا خیال ہے کہ ان کا شمار امریکہ کے غیر معمولی ذہانت رکھنے والے صدور میں نہیں ہوتا۔

وہ کہتی ہیں:’میں نے کبھی انہیں بہت زیادہ تیز دماغ یا ذہین نہیں پایا۔ آپ دیکھیے وہ کس اسکول میں زیرِ تعلیم رہے۔ ان کے گریڈز دیکھیے۔ وہ انڈر گریڈز یا گریجویشن کے لیے اعلیٰ ترین اداروں میں نہیں گئے۔ اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ وہ ایک اوسط ذہانت کے حامل ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ وہ اپنی خصوصیت کے بل پر ہی اس مقام(صدارت) تک پہنچے ہیں، جو میرے نزدیک ان کی شخصیت ہے۔‘‘

عوام ذہین لیڈر پسند کرتے ہیں؟

پروفیسر سائمنٹن کا کہنا ہے کہ صدر بننے والا شخص ظاہر ہے کہ عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ذہین ہوتا ہے لیکن یہ بھی پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ وہ اپنے حامیوں کے سامنے بہت زیادہ ذہانت اور دانشوری کا اظہار بھی نہیں کرسکتا کیوں کہ لوگ ایسے لیڈرز کے پیچھے نہیں چلتے جن کی بات ہی ان کی سمجھ میں نہ آتی ہو۔

باربرا پیری اور ڈین سائمنٹن اس بات پر متفق ہیں کہ امریکہ کی تاریخ کے ابتدائی صدر سب سے زیادہ ذہین لوگ تھے۔

ان کے نزدیک اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ابتدا میں صدور براہ راست ووٹ سے منتخب نہیں ہوتے تھے۔ انہیں وہ الیکٹورلز منتخب کرتے تھے جن کا انتخاب ریاستی قانون ساز اسمبلیوں سے کیا جاتا تھا۔

پروفیسر سائمنٹن کا کہنا ہےکہ ابتدائی دور کا صدر عوام سے زیادہ لیڈروں کا لیڈر ہوتا تھا کیوں کہ اسے منتخب کرنے والے بھی لیڈر ہوتے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے ایک تحقیق کی تھی جس میں یہ بات سامنے آئی کہ دنیا کے کئی ممالک میں منتخب ہونے والے وزیرِ اعظم امریکہ کے صدور کے مقابلے میں زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ کیوں کہ وزیرِ اعظم کا انتخاب لیڈرز کرتےہیں اور ان میں اپنی جگہ بنانے کے لیے کسی بھی شخص کا زیادہ ذہین ہونا ضروری ہے۔

کم ترین ذہانت رکھنے والے صدور

امریکہ کی بانیوں میں شامل اور چھٹے صدر بنجمن فرینکلن نہ صرف ایک سیاسی مدبر اور ماہرِ قانون تھے بلکہ ان کا شمار سائنس دانوں میں بھی ہوتا ہے۔ صدر جیفرسن کے کارناموں کی فہرست بھی طویل ہے۔ تاہم امریکہ کی ڈھائی سو سالہ تاریخ میں قدرے کم ذہانت رکھنے والے رہنما بھی صدارت کے منصب تک پہنچے ہیں۔

امریکہ کے سب سے کم ذہین صدور میں وارن ہارڈںگ شامل ہیں۔ ان کا دورِ صدارت مختلف تہلکہ خیز اسکینڈلز سے عبارت ہے۔ اسی طرح اینڈریو جونسن کو بھی کم ذہین صدور میں شمار کیا جاتا ہے ہے جو پیشے کے اعتبار سے درزی تھے اور کبھی اسکول نہیں گئے تھے۔

امریکہ کے تیسویں صدر کیلون کولج کے بارے میں بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اگر انہیں دوپہر کے بعد قیلولے کا موقع نہیں ملتا تھا تو وہ دن کے اوقات میں بلائے گئے اجلاسوں کے درمیان ہی سو جایا کرتے تھے۔

پروفیسر سائمنٹن کا کہنا ہے کہ امریکہ کو ایسے روشن دماغ رہنماؤں کی ضرورت ہے جو پیچیدہ امور کو سمجھ کر اسے عام امریکیوں کے لیے قابلِ فہم بنانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

ان کا کہنا ہےکہ ذہانت اور مسائل کو حل کرنے میں بنیادی تعلق ہے۔ صدر کے سامنے جو مسائل آتے ہیں وہ بہت پیچدہ ہوتے ہیں۔ زیادہ ذہین لیڈر زیادہ سے زیادہ پیچیدہ مسائل کا حل نکالنے کے قابل ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ایک دور میں اسمارٹ یا ذہین ہونا لیڈر کے لیے اثاثہ تصور ہوتا تھا۔ اس میں آئی کیو لیول، اعلی یونیورسٹیوں میں تعلیم جیسے باتوں کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ اب صدارت کے لیے معیارات ویسے نہیں رہے۔

یہ تحریر وائس آف امریکہ کے لیے ڈورا مکورا کی رپورٹ سے ماخوذ ہے۔

XS
SM
MD
LG