وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو ایک قانون پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت چین میں ایغور قیدیوں کی جبری مشقت سے بنی اشیا پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
ایغور جبری مشقت پر پابندی کے ایکٹ کو گزشتہ ماہ ایک برس طویل مذاکرات کے بعد کانگریس نے منظور کیا تھا۔
اس قانون کے مطابق چین کے صوبے سنکیانگ میں بنائی جانے والی اشیا کی امریکہ درآمد پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ پابندی اس وقت تک رہے گی جب تک کہ یہاں کی کمپنیاں شفاف اور قابلِ یقین ثبوت نہ دے دیں کہ ان کی اشیا کے بننے کے دوران کسی مرحلے پر نسلی طور پر ایغور مسلمانوں سے کیمپوں میں جبری مشقت نہیں کرائی گئی۔
بیجنگ ان حراستی مراکز کو تعلیم و فنی تربیت کے مراکز قرار دیتا ہے جنہیں مبینہ طور پر شدت پسندانہ خیالات سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
چین کی جانب سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے خلاف مزاحمت کی تازہ لہر فروری میں بیجنگ میں ہونے والے سرمائی اولمپکس سے پہلے شروع ہوئی۔
رواں برس کے اوائل میں امریکہ نے چین کے ایغور مسلمانوں کے ساتھ سلوک کو نسل کشی قرار دیا تھا جب کہ گزشتہ ہفتے ہی امریکہ نے سرمائی اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں ایک غیر جانب دار ٹریبیونل نے قرار دیا کہ ایغور مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کے اقدامات کی ذمہ داری اعلیٰ سطح کی چین کی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔
چین کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بیجنگ امریکہ کی کانگریس کی جانب سے چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی مخالفت کرتا ہے۔
انہوں نے امریکہ کے سیاسی رہنماؤں پر چین سے متعلق جھوٹ پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ چین کی ترقی کو سیاسی چال سے روک سکیں اور انسانی حقوق کے نام پر معاشی طور پر نقصان پہنچائیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس قانون سازی کی تعریف کی ہے اور اسے چین کی جانب سے ایغور مسلمانوں کے ساتھ سلوک سے نمٹنے کے لیے ایک اچھی پیش رفت قرار دیا ہے۔
'ایغور ہیومن رائٹس پروجیکٹ' کے 'سینئر پروگرام افسر فار ایڈوکیسی اینڈ کمیونیکیشن' پیٹر ارون نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا بھر کے لیے پیغام ہے کہ اس معاملے پر امریکہ اقدامات اٹھائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ دوسرے ممالک کی حکومتوں کے لیے مثال ہے کہ وہ بھی ایسے ہی جبری مشقت کے خلاف قوانین کو منظور کریں۔
انہوں نے امریکہ کی طرف سے سفارتی بائیکاٹ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے سب سے پہلے یہ قدم اٹھایا جس پر دوسری حکومتوں نے بھی عمل کیا۔
امریکی کمپنیوں نائیکی اور کوکا کولا نے اس قانون کے ابتدائی مسودوں کی مخالفت میں لابنگ کی تھی۔
بائیڈن انتظامیہ پر سینیٹر مارکو روبیو نے الزام لگایا تھا کہ وائٹ ہاؤس اس بل کو اس لیے روک رہا ہے کیوں کہ اس پر بائیڈن کے موسمیاتی تبدیلی کے ایلچی جان کیری کو خدشات ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پیٹر ارون نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ دنیا بھر کی 40 فی صد پولی سلیکون کی رسد سنکیانگ سے ہوتی ہے۔ اس پابندی کی وجہ سے سولر سیل اور پینلوں کی صنعت کے لیے مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔
اس قانون کے منظور ہونے پر مارکو روبیو نے ایک بیان میں اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اب امریکہ کا معاشی معاملات میں چین پر انحصار کرنے کا وقت ختم ہونا چاہیے۔