|
امریکی صدر بائیڈن نے پیر کے روز سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر تنقید کی ہے جس میں عدالت نے امریکی صدور کو اپنے عہدہ کی مدت میں، کارِ سرکار کے معاملے میں قانونی کارروائی سے استثنیٰ دیا تھا۔
یہ کیس سابق صدر ٹرمپ کے 2020 کے صدارتی انتخاب کے نتائج کو مبینہ طور پر تبدیل کرنے سے متعلق تھا۔
صدر نے کہا، ’’کوئی بھی قانون سے ماورا نہیں ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ کا صدر بھی۔‘‘
انہوں نے صدارتی اختیارات کی حدود کا احترام کرنے کا عزم کیا اور انتباہ کیا کہ مستقبل کے صدور ایسا نہیں کریں گے۔
بائیڈن نے کہا، ’’کوئی بھی صدر، چاہے ڈونلڈ ٹرمپ ہوں، اب قانون کو نظرانداز کرنے میں آزاد ہوگا۔‘‘
امریکہ کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ سابق صدور کو عدالتی کارروائی سے محدود استثنیٰ حاصل ہے۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے کیے گئے دعوے سے متعلق ایک مقدمے میں اعلیٰ ترین عدالت نے یہ بھی کہا کہ سابق صدر کے سرکاری حیثیت میں کیے گئے اقدامات کو عدالتی کارروائی سے مکمل استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اس کا اطلاق ان کے ایسے اقدامات پر نہیں ہوتا جو غیر سرکاری تصور ہوتے ہوں۔
ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں سال 2020 کے الیکشن کے نتائج الٹنے کی کوشش کے معاملے پر عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔
SEE ALSO: سابق صدور کو عدالتی کارروائی سے محدود استثنا ہے: امریکی سپریم کورٹ کا فیصلہصدر نے کہا کہ پیر کے روز عدالتی فیصلہ، سپریم کورٹ کی جانب سے بقول ان کے، ’’ملک میں طویل عرصے سے موجود قانونی اصولوں پر موجودہ برسوں میں ہونے والے حملے کی ایک کڑی ہے۔‘‘
انہوں نے اس سلسلے میں عدالت کی جانب سے ابارشن اور سول رائیٹس کی جدوجہد کے زمانے کے ووٹنگ کے قوانین سے متعلق فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے، ’’ملک میں قانون کی حکمرانی کو گزند پہنچی ہے۔‘‘
امریکی سپریم کورٹ نے پیر کے روز ایک فیصلے میں کہا تھا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سرکاری امور کے معاملے میں قانونی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے، لیکن اس کا اطلاق غیر سرکاری معاملات پر نہیں ہوتا۔
سابق صدرٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں سال 2020 کے الیکشن کے نتائج الٹنے کی کوشش کے معاملے پر عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔
SEE ALSO: صدر بائیڈن سے صدارتی دوڑ سے دستبرداری کی اپیل ڈیموکریٹک رہنماؤں نے مسترد کر دیواضح رہے کہ ٹرمپ کے حامیوں نے چھ جنوری 2021 کو کانگریس کی عمارت پر اس وقت حملہ کر دیا تھا جب وہاں موجودہ صدر جو بائیڈن کی سال 2020 کے انتخابات میں کامیابی کی توثیق کا عمل جاری تھا۔
اب جب کہ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر صدارتی الیکشن کی دوڑ میں شامل ہیں تو سپریم کورٹ کے ٖفیصلے کا فوری طور پر اثر یہ ہو گا کہ ان کے خلاف وفاقی الزامات کا فیصلہ 2024 کے انتخابات سے پہلے نہیں کیا جائے گا۔
ٹرمپ رواں سال ہونے والے امریکی الیکشن میں ری پبلکن پارٹی کے ممکنہ امیدوار ہیں۔ اگر وہ الیکشن جیت جاتے ہیں تو وہ استغاثہ کو مکمل طور پر ختم کرنے کے قابل ہوں گے۔
نو ارکان پر مشتمل امریکی سپریم کورٹ کے چھ قدامت پسند ججوں نے ٹرمپ کے استثنیٰ کے فیصلے کے حق میں رائے دی جسے چیف جسٹس جان رابرٹس نے تحریری طور پر جاری کیا۔ عدالت عالیہ کے لبرل ونگ کے تین ارکان نے اس فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔
SEE ALSO: امریکہ: ڈیموکریٹک رہنماؤں نے بائیڈن کے انتخابی دوڑ سے باہر ہونے کی تجویز مسترد کر دیاس طرح ججوں کی اکثریت نے ٹرمپ کے خلاف ان کئی اقدامات کے لیے قانونی چارہ جوئی کو مسترد کر دیا جو انہوں نے انتخابات کے بعد کیے تھے۔ ان میں ٹرمپ کی جانب سے محکمۂ انصاف کے ایک اہلکار کو برخواست کرنے کی دھمکی دینا بھی شامل تھا۔
محکمۂ انصاف کے اہلکار سے کہا گیا تھا کہ وہ یہ جھوٹا دعویٰ کرے کہ محکمہ بائیڈن کے حق میں ووٹ دینے والی کچھ ریاستوں میں ممکنہ دھوکہ دہی کی تحقیقات کر رہا ہے۔
تاہم، عدالت نے اس امکان کو کھلا چھوڑ دیا کہ استغاثہ استثنیٰ کے مفروضے کی "تردید" کر سکتا ہے جیسا کہ دیگر سرکاری کارروائیوں کے سسلے میں ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ نے کیس پر فیصلہ کرنے کے لیے اسے ماتحت عدالت میں بھیج دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے ٖفیصلے کے فوراً بعد ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا نیٹ ورک ٹروتھ سوشل پر اس فیصلے کو آئین اور جمہوریت کے لیے ایک بڑی فتح قرار دیا۔ انہوں نے لکھا کہ وہ امریکی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
اعلیٰ عدالت کے ٖفیصلے کے بعد ٹرمپ کو کئی دیگر مقدمات کا بھی سامنا ہے۔
وائس آف امریکہ کی رپورٹ۔