|
اتوار کے روز امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے اہم رہنما صدر جوبائیڈن کے حق میں ثابت قدمی سے کھڑے نظر آئے۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ پہلے مباحثے کے دوران بائیڈن کی کارکردگی کی کے پیش نظر اس خیال کو مسترد کر دیا کہ انہیں اپنے عہدےکی دوسری چار سالہ مدت کے لیے 2024 کی اپنی انتخابی مہم ختم کر دینی چاہیے۔
بائیڈن کے حامی ڈیموکریٹس نے ٹیلی وژن پر قومی سطح پر نشر ہونے والے 90 منٹ کے دورانیے میں 81 سالہ بائیڈن کی خامیوں کو تسلیم کیا، جس کے دوران انہیں بعض اوقات اپنے جملے مکمل کرنے کے لیے مشکل کا سامنا کرنا پڑا اور ایک موقع پر غلطی سے انہوں نے یہ کہہ دیا کہ میڈی کیئر کو ختم کر دیا ہے۔ میڈی کیئر بوڑھے امریکیوں کی ہیلتھ انشورنس کا حکومتی پروگرام ہے۔
سی بی ایس۔یو جی او سی کے ایک نئے سروے سے ظاہر ہو اہے کہ 27 کے مقابلے میں 72 امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ صدر کے طور پر کام کرنے کے لیے صدر کی ذہنی صحت اور سمجھ بوجھ مناسب نہیں ہے، جو کہ تین ہفتے قبل کے اسی سوال کے مقابلے میں سات فی صد پوائنس کم ہے۔ تاہم بائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان رائے عامہ کا مقابلہ اب بھی بدستور سخت ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے اہم عہدے داروں نے نیویارک ٹائمز اور دی اٹلانٹا جرنل کانسٹیٹیوشن میں ڈیموکریٹک پارٹی کے کچھ عام اور کلیدی عہدے داروں اور اداریوں کی اس تجویز کو مسترد کر دیا کہ بائیڈن نسبتاً کم عمر امیدوار کے حق میں انتخابی دوڑ سے باہر ہو جائیں۔
’اٹلانٹا جرنل کانسٹیٹیوشن‘ ، ریاست جارجیا کے جنوبی سیاسی میدان کا ایک اہم اخبار ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ بدقسمتی سے سچائی یہی ہے کہ بائیڈن کو سیاسی دوڑ سے نکل جانا چاہیے۔ انہوں نے نصف صدی تک قوم کی بھلائی کے لیے قابل قدر خدمات سرانجام دیں ہیں۔ صدر بائیڈن کے لیے اب ریٹائرمنٹ لینا ضروری ہے۔
جارجیا کے ڈیموکریٹک سینیٹر وارنوک نے این بی سی کے ’میٹ دی پریس‘ میں کہا، ’ مباحثے خراب ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اور اپنے جیسے لوگوں کے علاوہ کبھی کسی کو کیا دکھایا ہے؟ میں جو بائیڈن کے ساتھ ہوں، اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ یہ یقینی بنائیں کہ وہ نومبر کا معرکہ سر کر لیں۔‘
جو بائیڈن کے معروف حامی، جنوبی کیرولائنا کے نمائندے، جم کلائی برن نے سی این این کے ’اسٹیٹ آف دی یونین‘ شو میں کہا کہ میرا نہیں خیال کہ جو بائیڈن کو اگلے چار برسوں تک قیادت کرنے میں کوئی مسئلہ ہے کیونکہ انہوں نے اپنے موجودہ عہدے کے ساڑھے تین برسوں میں بہترین قیادت کا مظاہرہ کیا ہے۔ میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ مستقبل کے طرز عمل کے بارے میں بہترین پیش گوئی ماضی کی کارکردگی ہے۔
انہوں نے اس پر زور دیاکہ مباحثے میں جو کچھ ہوا وہ تیاری کا بہت زیادہ بوجھ تھا۔
میری لینڈ کے گورنر ویس مور نے سی بی ایس کے پروگرام ’فیس دی نیشن‘ میں کہا کہ صدر کے لیے وہ ایک مشکل رات تھی جس طرح ہم میں سے ہر ایک کے لیے ہوتی ہے۔ لیکن انہیں 5 نومبر کو ہونے والے انتخابات سے دستبرداری پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن یہ مقابلہ نہیں چھوڑ رہے، اور نہ ہی انہیں چھوڑنا چاہیئے۔
بائیڈن کی انتخابی مہم نے ’سیٹرڈے فنڈ ریزنگ اپیل‘ میں کہا ہے کہ ان کی جگہ، ڈیموکریٹک پارٹی کے معیار کے نئے امیدوار کے انتخاب کے لیے اگست میں پارٹی کے قومی کنونشن سے کئی ہفتوں تک افراتفری کا سامنا کرنا پڑے گا جو قومی انتخاب میں ہارنے کی شاہراہ پر چلنے جیسا ہے۔
بائیڈن کی وائٹ ہاؤس کی کمیونیکیشنز کی سابق مشیر کیٹ بیڈنگ فیلڈ نے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بائیڈن کی انتخابی مہم نے مباحثے کے بعد تین کروڑ 30 لاکھ ڈالر کے فنڈز اکٹھے کیے ہیں۔
ٹرمپ کے ریپبلکن حامیوں نے پہلے صدارتی مباحثے میں بائیڈن کی کمزور کارکردگی سے متعلق وضاحتوں اور توجیہات کو مسترد کر دیا۔
ریپبلکن نیشنل کمیٹی کے سابق چیئرمین اور کچھ عرصے تک ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس چیف رہنے والے رینس پریبس نے بائیڈن کے انتخابی دوڑ میں شامل رہنے کو جو بائیڈن کے لیے منفی پہلو قرار دیا ہے۔
انہوں نے اے بی سی کے پروگرام’ دس ویک‘ میں کہا کہ’ یہ خراب مباحثے کی رات نہیں تھی، یہ ایک بے ربط اور تقریباً ناممکن حد تک الجھی ہوئی بات چیت تھی۔
ساؤتھ کیرولائنا کے ریبپلکن سینٹر لنزی گراہم نے سی این این پر صدر بائیڈن کے بارے میں کہا کہ وہ ایک نفیس انسان اور ناکام صدر ہیں۔ پوری کہانی یہ ہے کہ وہ کمپرومائزڈ ہیں۔ دنیا نے یہی دیکھا ۔ وہ ایک کمپرومائزڈ صدر ہیں۔
بائیڈن، اختتام ہفتہ نیویارک اور نیوجرسی میں چندہ جمع کرنے کی مہم میں حصہ لینے کے بعد، فیملی کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے بہت پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق کیمپ ڈیوڈ چلے گئے ہیں، جو واشنگٹن کے مضافات میں ایک صدرارتی آرام گاہ ہے۔
بائیڈن نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ انتخابی دوڑ سے الگ ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اس کے برعکس ہی بات کی ہے۔
جمعے کے روز، مباحثے کے اگلے روز، بائیڈن نے اپنے حامیوں سے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ میں نوجوان نہیں ہوں۔ میں اتنی آسانی سے نہیں چل سکتا، جتنی آسانی سے میں چلا کرتا تھا۔ میں اتنی روانی سے نہیں بول سکتا جیسا کہ میں بولا کرتا تھا۔ میں اس طرح کا بحث مباحثہ نہیں کر سکتا جیسا کہ میں کیا کرتا تھا۔لیکن میں جانتا ہوں کہ مجھے کیا معلوم ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ کس طرح سچ کہنا ہے۔
بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ اگر انہیں یقین نہ ہوتا تو وہ دوسری مدت کے لیے الیکشن میں حصہ نہ لیتے۔ ’میں اپنے پورے دل و جان کے ساتھ یہ کر سکتا ہوں‘۔
وائس آف امریکہ کی رپورٹ۔
فورم