امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سپر ٹیوزڈے کے پرائمری مقابلوں میں فتوحات کے بعد ایک دوسرے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ایک بیان میں صدر بائیڈن نے خبردار کیا ہے کہ ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت امریکی جمہوریت کے وجود کے لیے خطرہ ہو گی۔
دوسری طرف فلوریڈا کے پام بیچ میں اپنے مار-اے-لاگو رہائش گاہ سے ایک خطاب میں ٹرمپ نے صدر بائیڈن کو ملک کی تاریخ کا بدترین صدر قرار دیا۔
سپر ٹیوزڈے پرائمری مقابلوں کے بعد اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ رواں برس نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن اور ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا آمنا سامنا ہو گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انتخابات سے قبل آٹھ مہینوں میں امریکی عوام کو اس قسم کے بہت سے سیاسی بیانات سننے کو ملیں گے۔
'لوگ بیان بازی سے تنگ آجائیں گے'
سیاسیات کے پروفیسر اور ڈینور یونیورسٹی میں 'سنٹر آن امریکن پولیٹکس' کے ڈائریکٹر سیٹھ ماسکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چوں کہ بائیڈن اور ٹرمپ امریکی ووٹرز کے لیے بہت مشہور ہیں، اس لیے وہ ایک دوسرے کو بنانے کے بجائے گرانے پر زیادہ توجہ مرکوز کریں گے۔
ماسکیٹ انتخابی مہم کے دوران بہت زیادہ منفی باتوں کی توقع رکھتے ہیں۔
ان کے بقول ٹرمپ امریکیوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بائیڈن کی وجہ سے معیشت اور معاشرہ دونوں ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں جب کہ بائیڈن نے اپنے ریکارڈ کا دفاع کیا ہے اور انہوں نے ووٹروں کو ٹرمپ کے دورِ صدارت کی بہت سی خرابیوں کی یاد دلائی ہے۔
SEE ALSO: ٹرمپ دوڑ میں شامل نہ ہوتے تو شاید دوبارہ صدارتی الیکشن نہ لڑتا: صدر بائیڈنماسکیٹ کے مطابق ٹرمپ آج کے حالات کو لفظی طور پر اب تک کے بدترین حالات کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ جب کہ بائیڈن موجودہ حالات کو اچھے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔ وہ لوگوں کو ٹرمپ انتظامیہ کے آخری سال کے افراتفری، وبائی امراض، 'بغاوت' اور ہر دوسری ایسی چیزوں کے بارے میں یاد دلانے کی کوشش کریں گے۔
ماسکیٹ کہتے ہیں کہ لوگ اس سے تنگ آجائیں گے لیکن ان کے لیے یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ دونوں اس انداز کو ترک کردیں گے۔
بائیڈن بیانیہ
بائیڈن نے منگل کی شام ووٹروں کو یاد دلایا کہ ان کے دورِ صدارت میں ملازمتوں اور اجرتوں، دونوں میں ریکارڈ سطح پر اضافہ ہوا اور ادویات اور بندوق جیسے معاملات میں ان کی حکومت کو پالیسی فتح حاصل ہوئی ہے۔
تاہم بائیڈن کے بیان کا زیادہ تر حصہ اس انتباہ پر مرکوز تھا کہ ٹرمپ کی دوسری مدت کیسی ہو سکتی ہے۔
اس سلسلے میں بائیڈن نے کہا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس واپس آتے ہیں تو ان کے دور میں ہونے والی تمام پیش رفت خطرے میں ہو گی۔
ان کے بقول ٹرمپ شکایت اور غم سے متاثر ہیں اور ان کی توجہ کا مرکز امریکی عوام پر نہیں بلکہ انتقام پر ہو گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے مطابق ٹرمپ بنیادی آزادیوں جیسے خواتین کی اپنی صحت کی دیکھ بھال کے فیصلے خود کرنے کی صلاحیت کو چھیننے کا ارادہ رکھتے ہیں اور وہ امرا کے لیے اربوں ڈالر کی مزید ٹیکس کٹوتیاں کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ یہی نہیں ٹرمپ اقتدار میں آنے کے لیے کچھ بھی کریں یا کہیں گے۔
بائیڈن مہم کی حکمتِ عملی کے بارے میں ایک میمو بدھ کی صبح پریس کو جاری کیا گیا جس میں ٹرمپ کے خلاف مقدمے پر بھی توجہ مبذول کرائی گئی۔
میمو میں کہا گیا ہے کہ "ڈونلڈ ٹرمپ ایک زخمی، خطرناک اور غیر مقبول امیدوار کے طور پر عام انتخابات میں لنگڑا رہے ہیں۔"
میمو کے مطابق ری پبلکن پارٹی کے متوقع طور پر نامزد امیدوار کو کیش رقم کی کمی کا سامنا ہے اور وہ بہت سے بیرونی مسائل سے دوچار ہیں۔
بائیڈن مہم کے میمو کے مطابق ٹرمپ ایک انتہائی ایجنڈے پر چل رہے ہیں جو پہلے ہی اس اہم ووٹنگ بلاکس کے لیے ایک بڑا بوجھ ثابت ہو رہا ہے جو صدارتی انتخاب میں 270 الیکٹورل ووٹوں کے ہدف کی جانب بہت اہم ہے۔
ٹرمپ بیانیہ
سپر ٹیوزڈے کے نتائج دیکھنے کے بعد ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے خطاب میں ملک کی موجودہ صورتِ حال کی ایک تاریک تصویر پیش کی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بائیڈن کے تین سالہ دورِ حکومت کے دوران امریکہ نے 'بہت شکست' کھائی ہے۔
ٹرمپ نے ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز کا حوالہ دیا جن میں مہنگائی میں اضافہ اور یوکرین اور غزہ کی جنگیں شامل ہیں۔
ٹرمپ نے اس بات پر اصرار کیا کہ اگر وہ صدر ہوتے تو کوئی بھی ایسا مسئلہ نہ ہوتا۔
ٹرمپ کی زیادہ تر توجہ امریکہ کی جنوبی سرحد پر جاری امیگریشن بحران پر رہی، جس کی وجہ سے دستاویز کے بغیر آئے لاکھوں تارکینِ وطن نے امیگریشن اور ریاستی حکام نے کو پریشان کر رکھا ہے۔
کوئی ثبوت پیش کیے بغیر ٹرمپ نے زور دے کر کہا کہ امریکہ کو اس وقت امیگریشن پر مبنی جرائم کی لہر کا سامنا ہے۔
انہو نے کہا، "ہمیں بہت سے لوگوں کو ملک بدر کرنا پڑے گا، بہت سے برے لوگوں کو کیوں کہ ہمارا ملک اس طرح نہیں رہ سکتا"۔"ہمارے شہر دم توڑ رہے ہیں۔ ہماری ریاستیں مر رہی ہیں۔ اور سچ کہوں تو ہمارا ملک مر رہا ہے۔"
SEE ALSO: ٹرمپ کی ایک اور کامیابی؛ ساؤتھ کیرولائنا پرائمری میں نکی ہیلی کو شکستٹرمپ نے موجودہ صدر پر افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء، چین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات اور توانائی کی آزادی سے متعلق معاملات کو غلط انداز میں نمٹنے کا الزام بھی لگایا۔
خیال رہے کہ پرائمری مقابلوں میں ٹرمپ کی ری پبلکن حریف جنوبی کیرولائنا کی سابق گورنر نکی ہیلی نے پندرہ میں سے چودہ ریاستوں میں شکست کے بعد اپنی انتخابی مہم کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن ٹرمپ نے اپنے بیانیے میں بائیڈن پر اپنی پوری توجہ مرکوز رکھی اور اپنی منگل کی تقریر میں نکی ہیلی کا کوئی ذکر نہ کیا۔
ٹرمپ کی 2016 کی انتخابی مہم کی بازگشت
ٹرمپ نے اپنی تقریر میں جن موضوعات پر زور دیا تھا وہ 2016 میں چلائی گئی مہم کی باز گشت ہیں۔ اس سال کی مہم میں ٹرمپ نے امریکہ کی جنوبی سرحد پر ہجرت پر توجہ مرکوز کی تھی۔
امریکن یونیورسٹی کے 'سائین انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اینڈ پولیٹکس' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایمی ڈیسی نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر کی تقسیم پیدا کر کے اپنی مہم چلانے کی تاریخ ہے۔
ڈیسی نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ ٹرمپ 2016 کی پلے بک کی جانب واپس جا رہے ہیں اور لوگوں کے لیے یہ (پلے بک) متاثر کن ہو گی یا نہیں، یہ دیکھنا باقی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر بائیڈن نے منگل کو براہِ راست ٹرمپ پر تنقید کی۔ تاہم جمعرات کی رات کانگریس سے اپنے 'اسٹیٹ آف دی یونین' خطاب کے دوران انہیں یہ موقع بھی ملے گا کہ وہ اس بات کو اجاگر کریں کہ ان میں اپنی پہلی مدت کے دوران قانون سازی پر ری پبلکنز کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی اہلیت تھی۔ بائیڈن اپنے خطاب میں اس سلسلے میں مستقبل کے ممکنہ تعاون کے شعبوں کو بھی اجاگر کرسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ہر سال کانگریس کے دونوں ایوانوں (ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ) کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہیں جسے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کہا جاتا ہے۔