یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کو دنیا بھر کے سامنے لانے کے لیے سوشل میڈیا کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ بڑے ٹیک پلیٹ فارمز روس کے سرکاری ذرائع ابلاغ کو پروپیگنڈے اور غلط معلومات پھیلانے کے لیے اپنے پلیٹ فارمز کو استعمال کرنے سے روکنے کے اقدامات کر رہے ہیں۔
گوگل نے اعلان کیا ہے کہ وہ یورپ میں پروپیگنڈا کرنے والے اداروں کے یو ٹیوب چینل فوری طور پر بلاک کر رہا ہے۔ ساتھ ہی گوگل نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ اس فیصلے پر پوری طرح سے عمل درآمد میں وقت لگے گا۔
امریکہ کی دوسری ٹیکنالوجی کمپنیوں نے بھی معمولی نوعیت کی تبدیلیاں کی ہیں جن میں روس کی رسائی کو محدود کرنا، اس کے مواد کو ایسے انداز میں پیش کرنا کہ لوگوں کو معلوم ہو یہ مواد روس کی حکومت کا پیش کردہ ہے اور روس کے سرکاری ذرائع ابلاغ کی اس آمدنی میں کمی کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں جو وہ ان ٹیکنالوجی کمپنیوں سے حاصل کر رہے تھے۔
فیس بک کی ایک سابق ڈائریکٹر پبلک پالیسی کیتھی ہربتھ کا کہنا تھا کہ یہ تبدیلیاں توازن قائم کرنےکا اقدام ہے جس کا مقصد سوشل میڈیا پر روس کے پروپیگنڈے کو اس حد تک کم کرنا ہے جس سے روسی حکام مشتعل نہ ہونے پائیں کِہ وہ جنگ کے اس نازک وقت میں اپنے شہریوں کو ان پلیٹ فارمز تک رسائی سے ہی محروم کر دیں۔
فیس بک اور انسٹا گرام کی مالک کمپنی میٹا نے یورپی یونین کی صدر ارسلا ونڈرلین کے اس بیان کے بعد، کہ یورپی یونین روس کے سرکاری میڈیا آؤٹ لیٹس آر ٹی اور اسپوتنک پر پابندی کے لیے کام کر رہی ہے، اعلان کیا ہے کہ وہ یورپ میں روس کے ان میڈیا آؤٹ لیٹس کی سروسز پر پابندی عائد کر دے گی۔
گوگل نے بھی منگل کو ان دونوں آؤٹ لیٹس کی یو ٹیوب پر یورپی پابندی کی پیروی کی۔ البتہ امریکہ نے اس قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی۔ نہ ہی روس کے سرکاری ذرائع ابلاغ پر پابندیوں کا اطلاق کیا اور معاملہ امریکی کی ٹیک کمپنیوں پر چھوڑ دیا کہ وہ اپنے طور پر اس معاملے کو حل کریں۔
آرٹی اور دوسرے روسی سرکاری ذرائع ابلاغ کے فیس بک اکاؤنٹس اب بھی امریکہ میں فعال ہیں۔
ٹوئٹر نے اعلان کیا ہے کہ حالیہ دنوں میں روس کے سرکاری ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والےاکاؤنٹس سے یومیہ 35 ہزار سے زیادہ ٹوئٹس کیے گئے جب کہ ان پیغامات کو ٹوئٹر صارفین نے ری ٹوئٹ بھی کیا۔
ٹوئٹر کے مطابق روس کی سرکاری ویب سائٹس سے آنے والے مواد پر لیبل لگایا جائے گا۔
گزشتہ ہفتے کیلی فور نیا میں قائم کمپنی مینلو پارک نے اعلان کیا تھا کہ وہ روس کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے اشتہارات پر پابندی لگا رہی ہے اور اس نے 40 جعلی اکاؤنٹس، صفحات اور گروپس کے نیٹ ورکس کو بھی ہٹا دیا تھا جن سے روس کی حمایت میں مواد صارفین تک پہنچایا جا رہا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ادھر مائیکروسافٹ نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ روس کے سرکاری میڈیا اداروں آر ٹی اور اسپوتنک کے مواد یا اشتہارات کو پیش نہیں کرے گا۔ نہ ہی اپنے ایپلی کیشن اسٹور میں آر ٹی کے ایپس شامل کرے گا۔
امریکہ میں مقبول چین کے پلیٹ فارم ٹک ٹاک نے اپنی سائٹ پر روس کی حمایت میں پروپیگنڈے پر قدغن نہیں لگائی اور کمپنی سے اس کا نقطۂ نظر جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو کوئی جواب بھی نہیں دیا گیا۔
روسی سرکاری میڈیا کی رسائی پر پابندی کی فیس بک کی کوششوں پر روسی حکام پہلے ہی ناراض ہیں۔ گزشتہ ہفتے میٹا کے حکام نے بتایا تھاکہ روسی ذرائع ابلاغ کی پوسٹس میں حقائق کی چھان بین نہ کرنے یا ان پوسٹس پر لیبل نہ لگانے کی روس کی درخواست کو انہوں نے مسترد کر دیا ہے۔ روس نے فیس بک تک رسائی پر پابندی عائد کرکے اس کا جواب دیا۔
غلط اطلاعات پھیلانے اور لوگوں کو متاثر کرنے جیسے امور پر نظر رکھنے والی فرم میبرو سولوشنز کے گراہم شیلنبرگر کہتے ہیں کہ روس نے اپنی پروپیگنڈا مشینری کو قائم کرنے اور فعال بنانے میں کئی برس لگائے ہیں اور درجنوں سائٹس کو فعال کیا ہے جن کا ہدف مختلف زبانیں بولنے والے لاکھوں لوگ ہیں اور اس تیاری نے ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے جواب دینا مشکل بنا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ نظام دس برس میں وضع کیا گیا ہے اور خاص طور پر جب بات یوکرین کی ہو تو انہوں نے بہت کچھ کیا ہے۔ انہوں نے چینلز بنائے ہیں۔ میسنجر بنائے ہیں اور اچانک اب اس کا جواب دینا پڑ رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے ورجینیا سے امریکی سینیٹر مارک وارنر نے گوگل، میٹا، ریڈٹ، ٹیلی گرام، ٹک ٹاک اور ٹوئٹر کو خطوط ارسال کیے تھے جن میں ان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اپنے پلیٹ فارمز پر روس کی سرگرمیوں کا سد باب کریں۔
انہوں نے لکھا کہ روس اسٹریٹیجک اثر کے لیے اس قسم کے حربے استعمال کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اطلاعات کی جنگ یا انفارمیشن وارفیئر روس کے فوجی نظریے کا لازمی جز بھی ہے۔