پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کی اور ان کی خیریت دریافت کی۔
ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد یہ تاثر ملا کہ وہ بیماری کے باوجود اپنے نظریات پر قائم ہیں اور ان کا حوصلہ بھی بلند ہے۔
بلاول بھٹو نے نواز شریف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کے متعلق ڈیل کرنے کی باتیں غلط ہیں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ نواز شریف سے ملاقات میں میثاق جمہوریت کی تجدید پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت پسند سوچ رکھنے والی سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوں اور یہ جماعتیں ملک کو حقیقی جمہوری ملک بنانے کے ایجنڈے پر کام کریں۔
بلاول بھٹو نے نواز شریف کے علاج کے معاملے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ 3 دفعہ ملک کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے ساتھ بقول ان کے جو سلوک ہو رہا ہے وہ قابل افسوس ہے۔
بلاول کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو ان کے الفاظ میں جس تناؤ کے ماحول میں رکھا گیا ہے یہ ان پر تشدد کے مترادف ہے۔
بلاول بھٹو کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب ملک میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے علاج کے معاملے پر قومی سطح پر بحث جاری ہے۔
سینئر تجزیہ کارسہیل وڑائچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو اور نواز شریف کی ملاقات علامتی اور سیاسی ہے۔ نہیں لگتا کہ اس کے نتیجے میں کوئی تحریک چلنے کا امکان ہے۔
سہیل وڑائچ کا مزید کہنا تھا کہ بلاول بھٹو کی نواز شریف سے ملاقات جذبہ خیرسگالی ہے۔ تاہم اس میں عمران خان کو بھی پیغام دیا گیا ہے کہ اگر عمران خان پیپلز پارٹی پر وار کریں گے تو پیپلز پارٹی دوسری سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت کے خلاف اتحاد بنا سکتی ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ سیاسی معاملات پرمفاد ایک ہو تو بقول ان کے یہ یہ دونوں جماعتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ معاملہ وہاں خراب ہوتا ہے جہاں یہ جماعتیں کسی معاملے پر مقتدر اداروں سے ڈیل کرتی ہیں۔ ایک اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دے دیتا ہے تو دوسرا روٹھ کر دوسری طرف بیٹھ جاتا ہے۔
اپنی بات سمیٹے ہوئے سہیل وڑائچ نے کہا کہ ابھی ایسا وقت نہیں آیا کہ حکومت کے خلاف کوئی بڑی تحریک چلے یا کوئی بڑا اتحاد سامنے آ سکے۔