قانون کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی شادیاں کرانے والے والدین اور سرپرستوں کے لیے دو زیادہ سے زیادہ تین سال قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
کراچی —
سندھ کی صوبائی اسمبلی نے کم عمری کی شادی کے خلاف بل کی منظوری دے دی ہے۔
پیر کے روز ڈپٹی اسپیکر، شہلا رضا کی صدارت میں ہونے والے سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران کم عمری کی شادی کے خلاف بل کا مسودہ صوبائی وزیر سماجی بہبود، روبینہ قائم خانی نے پیش کیا۔
قانون سازی کے تحت نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے۔ بل میں 18سال سےکم عمر میں ہونیوالی تمام شادیوں کو غیرقانونی قرار دیا گیا ہے۔
منظور کردہ بل کے مطابق، 18 سال سے کم عمر کی شادی 'جرم' تصور کی جائےگی۔
’ایسی شادیاں کروانے والے والدین اور سرپرستوں کے لئے کم سے کم دو، اور زیادہ سے زیادہ تین سال قید کی سزا اور جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔‘
خواتین کے حقوق کیلئے سرگرم تنظیم کی ڈائریکٹر، مہناز رحمان نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں اِس بل کے حوالے سے بتایا کہ ’اس بل کا منظور کیا جانا ایک خوش آئند بات ہے۔ سول سوسائٹی اس بل کیلئے کافی برس سے جدوجہد کر رہی تھی۔ ہم ایوان کے شکر گزار ہیں کہ اس بل کو اہم سمجھا گیا۔‘
انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ حکومت اس بل پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔
آئین سازی کی رو سے، اس قانون پر مؤثر عمل درآمد کے لیے، کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔
بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے ترجمان، اقبال ڈیتھو نے ’وی او اے‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’چائلڈ میرج بل پر مؤثر عمل درآمد کے سلسلے میں عوام میں آگہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‘
اُنھوں نے کہا کہ تھانے اور پولیس کی حد تک اس قانون سازی کے بارے میں آگہی پیدا کرنے کی ضروت ہے، تاکہ خصوصی طور پر دیہات میں بھی اس کا اطلاق ہوسکے۔ بقول اُن کے،’کم عمری کی شادیاں جرم ہیں، جس کے خلاف کاروائی وقت کی ضرورت ہے‘۔
ایک جانب کم عمری کی شادیاں خواتین کے حقوق کے خلاف سمجھی جاتی ہیں تو دوسری جانب کم عمری کی شادیوں سے بچوں کے حقوق بھی پامال ہوتے ہیں۔ سول سوسائٹی کی جانب سے امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ اگر اس بل پر مناسب طریقے سے عملدرآمد کرایا جائے، تو اس کے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
پیر کے روز ڈپٹی اسپیکر، شہلا رضا کی صدارت میں ہونے والے سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران کم عمری کی شادی کے خلاف بل کا مسودہ صوبائی وزیر سماجی بہبود، روبینہ قائم خانی نے پیش کیا۔
قانون سازی کے تحت نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے۔ بل میں 18سال سےکم عمر میں ہونیوالی تمام شادیوں کو غیرقانونی قرار دیا گیا ہے۔
منظور کردہ بل کے مطابق، 18 سال سے کم عمر کی شادی 'جرم' تصور کی جائےگی۔
’ایسی شادیاں کروانے والے والدین اور سرپرستوں کے لئے کم سے کم دو، اور زیادہ سے زیادہ تین سال قید کی سزا اور جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔‘
خواتین کے حقوق کیلئے سرگرم تنظیم کی ڈائریکٹر، مہناز رحمان نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں اِس بل کے حوالے سے بتایا کہ ’اس بل کا منظور کیا جانا ایک خوش آئند بات ہے۔ سول سوسائٹی اس بل کیلئے کافی برس سے جدوجہد کر رہی تھی۔ ہم ایوان کے شکر گزار ہیں کہ اس بل کو اہم سمجھا گیا۔‘
انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ حکومت اس بل پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔
آئین سازی کی رو سے، اس قانون پر مؤثر عمل درآمد کے لیے، کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔
بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے ترجمان، اقبال ڈیتھو نے ’وی او اے‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’چائلڈ میرج بل پر مؤثر عمل درآمد کے سلسلے میں عوام میں آگہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‘
اُنھوں نے کہا کہ تھانے اور پولیس کی حد تک اس قانون سازی کے بارے میں آگہی پیدا کرنے کی ضروت ہے، تاکہ خصوصی طور پر دیہات میں بھی اس کا اطلاق ہوسکے۔ بقول اُن کے،’کم عمری کی شادیاں جرم ہیں، جس کے خلاف کاروائی وقت کی ضرورت ہے‘۔
ایک جانب کم عمری کی شادیاں خواتین کے حقوق کے خلاف سمجھی جاتی ہیں تو دوسری جانب کم عمری کی شادیوں سے بچوں کے حقوق بھی پامال ہوتے ہیں۔ سول سوسائٹی کی جانب سے امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ اگر اس بل پر مناسب طریقے سے عملدرآمد کرایا جائے، تو اس کے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔