پاکستان کی پارلیمان نے انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے ) 1997 میں ترمیم کا بل اور تیزاب اور آگ سے جلانے کے جرم کا بل 2017ء سمیت اہم بلز کی منظوری دے دی ہے۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے ) 1997 ترمیمی بل کے تحت وزارت داخلہ کی واچ لسٹ میں شامل انفرادی شخص، تنظیم، مذہبی اور سیاسی جماعتوں پر مکمل پابندی عائد کی جا سکے گی۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت منگل کو پارلیمنٹ ہاوس اسلام آباد میں ہوا جس میں اتفاق رائے سے تیزاب اور آگ سے جلانے کے جرم کا بل 2017ء منظور کیا گیا۔ بل میں پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی نوید قمر کی جانب سے پیش کی جانے والی تمام ترامیم بھی منظور کر لی گئیں۔
حکومتی رکن ماروی میمن نے تیزاب اور آگ سے جلانے کے جرم کا بل 2017ء قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں زیر غور لانے کی تحریک پیش کی۔ سید نوید قمر نے مختلف ترامیم پیش کیں جن کی مخالفت نہیں کی گئی اور ان کو منظور کرلیا گیا۔ اس کے بعد شق وار بل کی منظوری لی گئی۔
ماروی میمن نے بل کی منظوری پر پارلیمنٹ اور حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ توقع ہے کہ اس بل کی سینٹ سے بھی متفقہ منظوری ہو گی۔ اس بل کے قانون بننے سے تیزاب پھینکے اور جلائے جانے کے واقعات میں کمی ہو گی۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ یہ اہم بل ہے تاہم آج کی ترامیم سے ایسے واقعات میں ملوث عناصر کو سزا دینے میں تاخیر ہو گی۔ توقع ہے کہ سینٹ اس کو بحال کر دے گا۔
بل کے تحت تیزاب اور آگ سے جلانے کے واقعہ میں متاثرہ شخص کی موت ہونے سے جرم کا ارتکاب کرنے والے مجرم کو کم از کم عمر قید کی سزا دی جائیگی، دانستہ تیزاب یا آگ سے جلانے کے عمل سے زخم پہنچانے والے کو کم از کم 7 سال سزا ہو گی، تیزاب یا آگ سے جلانے کے ارتکاب کی کوشش کرنے والے کو 3 سے 7 سال تک قید اور ایک لاکھ تک جرمانہ ہو گا، ملزم کے خلاف کارروائی کے دوران جہاں ممکن ہو روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو گی۔
دوسرا اہم بل جس کی ایوان نے منظوری دی، وہ ہے انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے ) 1997 میں ترمیم کا بل جس کے تحت وزارت داخلہ کی واچ لسٹ میں شامل انفرادی شخص، تنظیم، مذہبی اور سیاسی جماعتوں پر مکمل پابندی عائد کی جا سکے گی۔ اس بل کے تحت تحقیقاتی افسر کی تربیت بھی کی جا سکے گی تا کہ وہ منی لانڈرنگ کے ذرائع کو تلاش کر سکے۔
رواں برس کے آغاز میں صدرِ مملکت ممنون حسین نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی جانب سے کالعدم قرار دی جانے والی تنظیمیں اور دہشت گرد افراد ملک میں بھی کالعدم قرار دئے جائیں گے۔
مذکورہ ترمیمی بل پر صدارتی دستخط کے بعد حافظ محمد سعید کی جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن (ایف آئی ایف) سمیت ال اختر ٹرسٹ اور الرشید ٹرسٹ بھی کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل ہو گئی تھیں۔
جماعت الدعوۃ کے چیف حافظ سعید نے صدارتی آرڈیننس اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے جبکہ ان کا دعویٰ ہے کہ صدارتی آرڈیننس محض بیرونی عناصر کے دباؤ میں آکر جاری کیا گیا جس کی آزاد ریاست میں کوئی گنجائش نہیں اور مذکورہ آرڈیننس آئین سے ’متصادم‘ ہے۔
امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان نے 19 جنوری کو پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ حافظ سعید کا نام اقوام متحدہ کی تیار کردہ دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو فروری 2012 میں گرے کیٹیگری میں شامل کیا تھا جہاں وہ تین سال تک اسی کیٹیگری میں رہا۔
ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے فروری کے آخر میں پریس بریفنگ کے دوران دہشت گردوں کے معاون ممالک سے متعلق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں پاکستان کا نام رواں سال جون میں شامل ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے کہا گیا اور حکومت ان معاملات کو پورا کرنے کے لیے اقدامات کررہی ہے۔
قومی اسمبلی نے مخنث افراد (تحفظ حقوق) بل کی بھی منظوری دے دی ہے جس کے تحت مخنث افراد کو اپنی شناخت کا حق حاصل ہو گا اور وہ نادرا میں اپنی صنف بھی تبدیل کرا سکیں گے، جبکہ مخنث شخص اپنے آپ کو سرکاری محکموں میں بطور ’مخنث‘ جنس رجسٹر کرا سکیں گے۔۔
مخنث افراد ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر سکیں گے اور پاسپورٹ رجسٹریشن کروا سکیں گے۔ مخنث افراد کے ساتھ تعلیمی اداروں، کام کی جگہ، تجارت، تفریحی مقامات اور صحت کی سروسز میں نہ امتیاز برتا جائے گا نہ انہیں برخاست کیا جائے گا، جبکہ ان کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ، پراپرٹی کی خرید و فروخت یا کرائے پر حاصل کرنے پر بھی کوئی امتیاز نہیں ہو گا۔
بل میں کہا گیا کہ حکومت مخنث افراد کے لیے محفوظ گھر قائم کرے گی اور انہیں طبی، تعلیمی اور نفسیاتی سہولیات فراہم کرے گی جبکہ ان کے لیے جیل میں علیحدہ کمرے ہوں گے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو مخنث افراد کے حوالے سے حساس بنایا جائے گا۔ مخنث افراد کو کاروبار کے لیے آسان شرائط پر قرضے دیئے جائیں گے۔ انہیں وراثت کا حق حاصل ہو گا اور حکومت مخنث افراد کو ملازمت کا حق دلانے کے لیے اقدامات کرے گی۔
بل میں کہا گیا کہ مخنث افراد کو تمام قومی، صوبائی و بلدیاتی انتخابات میں ووٹ کا حق بھی حاصل ہو گا۔ حکومت مخنث افراد کو مفت تعلیم فراہم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے گی اور کوئی ادارہ اُن سے ملازمت میں امتیاز نہیں برتے گا۔ بل کے مطابق اگر کوئی مخنث افراد کو بھیک مانگنے پر مجبور کرے گا، اسے چھ ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔