کراچی یونیورسٹی میں مبینہ خودکش دھماکے میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد ہلاک اور چار زخمی ہوگئے.اساتذہ اس گاڑی میں سوار تھے جو انہیں کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ لارہی تھی۔ دہشت گردی سے متعلق امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حملہ چین کے خلاف سلسلہ وار حملوں کی ایک کڑی معلوم ہوتا ہے جس کی ذمہ داری کا دعویٰ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے کیا ہے۔ یہ گروپ پہلے بھی چینی مفادات پر حملوں میں ملوث رہا ہے۔
سلمان جاوید میری ٹائم فورم سے تعلق رکھتے ہیں اور دہشتگردی سے متعلق امور کے ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی اور اس سے وابستہ دہشت گرد سمجھتے ہیں کہ چین سی پیک کو بنیاد بنا کر اپنی سرگرمیاں پاکستان میں جاری رکھے ہوئے ہے اور ان کے علاقے کو اپنی نو آبادی بنانے اور ان کے ہاں موجود قدرتی وسائل پر قبضے کے لیے کو شاں ہے۔
SEE ALSO: کراچی یونیورسٹی میں خاتون کا مبینہ خود کش حملہ، تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد ہلاکیہ خود کش حملہ ایک برقع پوش خاتون نے کیا جس کا نام بلوچ لبریشن آرمی کے بیان میں شیری بلوچ بتایا گیا ہے۔
پاکستان میں خودکش حملوں کی تاریخ میں یہ نیا رجحان سامنے آ رہا ہے کہ خواتین کو بمبار کے طور پراستعمال کیا گیا ہو۔ یونیورسٹی میں ہونے والا حملہ بھی، ابتدائی اطلاعات کے مطابق، ایک خاتون نے ہی کیا۔ تاہم وہ پاکستان کے اندر پہلی خودکش بمبار نہیں تھیں۔ اس سے پہلے بھی ایک حملے میں ایک خاتون کے ملوث ہونے کے شواہد ملے تھے۔
سلمان جاویدسمجھتے ہیں کہ اس حملے کے سلسلے میں بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کا مرکزی کردار رہا ہے جسےاسلامک اسٹیٹ آف پاکستان پراونس یا ISSP اور اس جیسے بعض دوسرے گروہوں کا تعاون حاصل رہتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اب اس نوعیت کے خود کش حملوں میں خواتین کا کردار بڑھ جائے گا کیونکہ وہ پردے کی آڑ میں خود کو بہتر انداز میں چھپا سکتی ہیں۔
اس قسم کے حملے ایک جانب تو چینی مفادات کے خلاف ہوتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کو بھی ان سے نقصان پہنچتا ہے۔ علاوہ ازیں ان حملوں کو پاکستان میں ایک بار پھر اسی طرح کے خودکش حملوں کے احیاء کی کوششوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ چند برس قبل اس طرح کے حملے روز کا معمول تھے، جس کے بعد وسیع سطح پر فوجی کارروایئوں کے نتیجے میں ان پر قابو پایا جاسکا تھا۔
SEE ALSO: پاکستان میں کون سے عسکریت پسند گروہ چینی مفادات کو نشانہ بناتے ہیں؟ماہرین سمجھتے ہیں کہ دہشتگردی کی نئی لہر کے ذریعے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کو آنے سے روکنے اور ملک کو معاشی طور پر غیر مستحکم رکھنے کا مقصد بھی حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
سلمان جاوید کا کہنا ہے کہ پاکستان کو فوری طورپر اس کے سد باب کے لیے جارحانہ انداز میں اقدامات کرنے ہوں گے، کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو خطرہ ہے کہ 2010ء اور اس کے بعد والے حالات پیدا ہو جائیں۔
آغا باقر ایک سابق پولیس افسر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت علاقے میں جتنے بھی دہشت گرد گروپ سرگرم ہیں، ان کی پشت پناہی کرنے والی قوتیں مشترکہ مفادات رکھتی ہیں۔ اس لیے یہ دہشت گرد گروپ بھی خطے میں پاکستان اور چین کے مفادات پر حملوں کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں اور چونکہ یہ حملے اچانک ہوتے ہیں اس لیے ان کو روکنا بہت مشکل ہوتا۔
تحقیقات ابھی بالکل ابتدائی مرحلے میں ہے، لیکن ماہرین کے بقول، تحقیقات محض ایک رسمی کارروائی ہے، کیونکہ حملے کے مقاصد اور ہدف، سب کچھ سامنے ہے اور حملہ آور بھی۔ ضرورت ایسے گروپوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔
پاکستان میں صرف اس سال کے دوران ہونے والے دہشت گردی کے بڑے حملے
4 مارچ کو پشاور کو قصہ خوانی بازار کے کوچہ رسالدار میں واقع شعیہ مسجدمیں دو حملہ اوروں نے گھسنے کی کوشش کی ، ڈیوتی پر موجود اہلکاروں پر فائرنگ ہوئی جس سے ایک جوان جان بحق دوسرا زخمی ہوگیا جس کے بعد مسجد میں ایک زور دھماکہ ہوا ۔ دھماکےبعد مسلح دہشت گرد وں نے مسجد میں داخل ہوکر فائرنگ شروع کردی جس سے کم از کم چھپن افراد ہلاک اور پنسٹھ کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
2 مارچ کو کوئٹہ میں ایک پولیس وین کے ساتھ دھماکہ ہوا جس میں ایک پولیس افسر سمیت تین افراد ہلاک ہوگئے اور تقریبا ستائیس راہ گیر زخمی ہوئے۔سینئر پولیس افسر فدا حسین کے مطابق فاطمہ جناح روڈ پر ہونے والےاس دھماکے کا نشانہ پولیس وین ہی تھا فوری طور پر کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم اس طرح کے حملے پاکستانی طالبان کرتے رہے ہیں۔
2- فروری کو صوبہ بلوچستان میں ہی پنجگور اور نوشکی کے مقامات پر سیکورٹی فورسز کے کیمپوں پر انتہائی منظم دہشت گردحملے ہوئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دونوں حملوں کو پسپا کردیا گیا ۔ پنجگور میں دہشت گردوں نے سیکورٹی فورسز کے کیمپ میں دو جانب سے داخل ہونے کی کوشش کی جسے ناکام بنادیا گیا۔آئی ایس پی آر کے مطابق نوشکی میں دہشت گردوں نے فرنیٹر کور کے ہیڈکوارٹر میں داخل ہونے کی کوشش کی جہاں ایک افسر زخمی ہوا جس کے بعد دو طرفہ فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوگیا ۔ اس میں بھی کالعدم بی ایل اے نے ذمہ داری قبول کی ۔ دونوں واقعات میں چھ دہشت گردوں اور متعدد فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کی خبریں تھیں۔
پچیس جنوری کو بلوچستان کے علاقے کیچ میں سیکورٹی فورسز کے چیک پوسٹ پر حملہ ہوا اور دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے دس سپاہیوں کو ہلاک کردیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردی کا یہ واقعہ پچیس اور چھبیس جنوری کی درمیانی شب کو پیش آیا۔ان واقعات کے بعد سیکورٹی فورسز نے بلوچستان میں بڑے پیمانے پر کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے جس کے دوران مختلف علاقوں میں اب تک درجنوں دہشت گردوں کے ہلاک کیے جانے کی غیر مصدقہ اطلاع ہے۔
بیس جنوری دو ہزار بائیس کو لاہور میں ہونے والے بم دھماکے میں تین افراد ہلاک اور کم از کم بیس زخمی ہوئے۔ دھماکہ ایک مصروف ترین بازار انارکلی میں قائم ایک بینک کے باہر کھڑی موٹرسائیکل میں نصب بم پھٹنے سے ہوا ۔ دھماکے سے قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے ۔ اس واقعہ کی ذمہ داری بھی بلوچ نیشنل آرمی نے قبول کی۔