کراچی یونیورسٹی میں اساتذہ کو لے جانے والی گاڑی کے قریب مبینہ خود کش دھماکے میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد ہلاک اور چار زخمی ہو گئے ہیں۔
پولیس کے مطابق دھماکہ اس وقت ہوا جب ایک گاڑی اساتذہ کو لے کر کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ آ رہی تھی۔ کراچی پولیس کے سربراہ غلام نبی میمن نے دھماکے میں چار افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کراچی یونیورسٹی میں چین کے شہر چنگڈو میں قائم سیچوان نارمل یونیورسٹی کےا شتراک سے 2013 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس انسٹی ٹیوٹ میں چینی زبان کے مختلف کورسز کرائے جاتے ہیں۔
عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ دھماکے کے فوری بعد گاڑی میں آگ لگ گئی تھی۔
مقامی میڈیا کے مطابق اساتذہ کی گاڑی کے قریب سے گزرنے والا ایک موٹر سائیکل سوار بھی دھماکے کی زد میں آیا۔
کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے دھماکے کی ذمے داری قبول کی ہے۔ تنظیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ خود کش دھماکہ تنظیم کی شیری بلوچ نامی خاتون حملہ آور نے کیا ہے۔
بعد ازاں دھماکے کی سی سی ٹی وی کیمرے کی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی جس میں نظر آ رہا ہے کہ اساتذہ کی گاڑی کے قریب دھماکے کے وقت ایک خاتون موجود ہیں۔ البتہ ابھی پولیس نے اس کی تصدیق نہیں کی۔
کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے قریب دھماکے کے مقام کا دورہ کرنے کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کراچی پولیس کے سربراہ غلام نبی میمن نے بتایا کہ کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کی گاڑی کے قریب دھماکہ ہوا ہے۔ البتہ دھماکے کی نوعیت کا تعین بم ڈسپوزل اسکواڈ نے کرنا ہے۔
کراچی پولیس چیف کا کہنا تھا کہ دھماکے میں زخمی ہونے والے چار افراد کو اسپتال منتقل کیا گیا ہے جن میں ایک رینجرز کا اہل کار اور ایک نجی سیکیورٹی کمپنی کا گارڈ شامل ہے۔
واقعہ کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اساتذہ کراچی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہتے تھے اور اپنی گاڑی سے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ آ رہے تھے جب اس دھماکے کا نشانہ بنے۔
قبل ازیں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ایسٹ مقدس حیدر نے میڈیا کو بتایا تھا کہ یہ دھماکہ دن دو بجے کے لگ بھگ انسٹی ٹیوٹ کے مرکزی دروازے کے بالکل سامنے ہوا۔
دھماکے بعد سیکیورٹی اہل کاروں نے جامعہ کراچی میں عام لوگوں کی آمد و رفت بند کر دی تھی اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا تاکہ اس مقام سے شواہد جمع کیے جا سکیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق بم ڈسپوزل اسکواڈ نے ابتدائی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دھماکے میں تین سے چار کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گاڑی کو ایک میٹر کے فاصلے سے نشانہ بنایا گیا۔
بعد ازاں سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے چین کے کراچی میں چینی قونصل خانے جا کر قونصل جنرل لی بیجیان سے ملاقات کی۔
انہوں نے ملاقات میں کراچی یونیورسٹی میں دھماکے میں چین کے شہریوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا۔
دوسری جانب وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کراچی یونیورسٹی میں دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعے میں ملوث عناصر کو انجام تک پہنچایا جائے گا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں چین کے سفارت خانے کا دورہ بھی کیا اور چین کی ناظم الامور پھینگ چنگ زو سے ملاقات کی۔
ملاقات میں انہوں نے کراچی میں دھماکے پرافسوس کا اظہار کیا جب کہ چین کے صدر شی جن پنگ کے لیے خصوصی تعزیتی پیغام بھی تحریر کیا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اپنے" آئرن برادرز" پر وحشیانہ حملے پر پوری پاکستانی قوم صدمے اور غم کی حالت میں ہے۔
'
یہ سی پیک پر حملہ ہے'
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے دھماکے کی مذمت کی ہے۔
دفترِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اور اس کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان جاری تعاون پر براہِ راست حملہ ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سی پیک کے منصوبوں اور ان میں کام کرنے والے چینی عملے کی سیکیورٹی حکومتِ پاکستان کی اولین ترجیح ہے۔
ادھر نیویارک سے ایک اطلاع کے مطابق، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، منیر اکرم نے عالمی ادارے میں تعینات چین کے سفیر زانگ جون کو ایک تعزیتی پیغام بھیجا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ انھیں کراچی میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں تین چینی شہریوں کی ہلاکت پر شدید صدمہ اور افسوس ہے۔
منیر اکرم نے کہا کہ ان دہشت گردوں نے ہمارے دشمنوں کی ایما پر یہ بزدلانہ حملہ کیا، جو اس بات کے کوشاں ہیں کہ چین اور پاکستان کے مابین لوہے کی طرح پختہ دوستی کو نقصان پہنچایا جاسکے۔ تاہم، انھوں نے کہا کہ وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
کراچی یونیورسٹی میں مبینہ خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی بلوچ لبریشن آرمی دیگر علیحدگی پسند عسکری تنظیموں کے ہمراہ بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز اور تنصیبات پر حملے کرتی رہی ہے۔ ان علیحدگی پسند تنظیموں کو سی پیک کے تحت بلوچستان میں چین کی سرمایہ کاری پر اعتراض ہے۔
سی پیک چین کے بلیٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت وہ کئی ممالک میں سرمایہ کاری کرکے مختلف منصوبے بنا رہا ہے۔ سی پیک کے تحت پاکستان میں کئی شاہراہیں، بجلی کے کارخانے اور بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ کے منصوبے مکمل کیے گئے ہیں۔
پاکستان ملک میں ہونے والی بد امنی کا الزام عمومی طور پر پڑوسی حریف ملک بھارت پر لگاتا رہا ہے اور وہ بلوچ عسکریت پسندوں کی مالی مدد اور دیگر امداد کے لیے نئی دہلی کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔ جب کہ بھارت ہمیشہ ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
رواں برس فروری میں بھی بی ایل اے نے بلوچستان میں پاکستان کی فوج کے دو مراکز پر حملے کیے تھے۔ ان حملوں میں تین دن تک فوج اور عسکریت پسندوں میں جھڑپیں جاری رہیں جن میں 9 فوجی اہل کار اور 20 حملہ آور مارے گئے تھے۔
بی ایل اے کو پاکستان کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی کالعدم قرار دے چکا ہے۔
قبل ازیں بی ایل اے کے عسکریت پسندوں نے کراچی اسٹاک ایکسچینج پر 2020 میں حملہ کیا تھا۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج میں 40 فی صد حصہ چین کی ایک کنسورشیم کا ہے۔ اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کو پارکنگ میں ہی سیکیورٹی اہل کاروں کا سامنا کرنا پڑا تھا جہاں تمام حملہ آور مارے گئے تھے۔
گزشتہ برس جولائی میں کوہستان میں چین کے کارکنوں کی ایک گاڑی کو خود کش حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ چینی کارکن چین کی مالی امداد سے تعمیر ہونے والے پن بجلی کے منصوبے داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے۔
اس حملے میں نو چینی شہری ہلاک ہوئے تھے۔ یہ پاکستان میں چین کے شہریوں کے لیے سب سے زیادہ ہلاکت خیز واقعہ تھا۔
امریکہ کے کوئنسی انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ایڈم وینسٹن کا سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہنا تھا کہ چین کے کارکنوں کے لیے پاکستان بدستور ایک خطرناک جگہ ہے جو کہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔