|
ایک ایسے وقت میں جب امریکی، قطری اور مصری حکام غزہ میں ایک کثیر مرحلہ جنگ بندی پر حماس کے ردعمل کا جائزہ لے رہے ہیں۔امریکی وزیر خارجہ نےکہا ہے کہ حماس نے جنگ بندی کےمعاہدےمیں متعدد تبدیلیاں تجویز کی ہیں جن میں سےکچھ قابل عمل ہیں اور کچھ قابل عمل نہیں ہیں۔
دوحہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلنکن نے کہا کہ اسرائیل نے اس تجویز کو من وعن قبول کر لیا ہے ۔ آنے والے دنوں میں ہم اپنے شراکت داروں، قطراور مصر پر معاہدے کو ہنگامی بنیاد پر طے کروانے کے لیے زوردینا جاری رکھیں گے۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ایڈوائزر جان کربی نے صحافیوں کو بتایا کہ حماس نے منگل کو قطر اور مصر کو اپنا جواب بھیجا ہے، اور یہ کہ امریکہ کا خیال ہے کہ اس جواب کو غزہ میں حماس کے سرکردہ رہنما یحییٰ سنوار کی منظوری حاصل ہے۔
کربی نے زیادہ تفصیلات بتانےسے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مذاکراتی عمل خطرے میں پڑ سکتا ہے ۔
کربی نےکہاکہ، ہمیں اس بارے میں بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے کہ ہم کیا کہتے ہیں اور کس طرح کہتے ہیں ، کیوں کہ یہاں بہت کچھ داؤ پر لگا ہے اور سب سے بڑھ کر یرغمالوں اور ان کے خاندانوں کی زندگیاں ۔
حماس اور نسبتاً چھوٹے عسکریت پسند گروپ، اسلامی جہاد کے مطابق، وہ جنگ کو "مکمل طور پر روکنے" کو ترجیح دیتے ہوئےکسی معاہدے پر پہنچنے کے لیے " مثبت انداز سے کام کرنے کےلیے تیار ہیں ۔"
حماس کے ایک عہدیدار نے کہا کہ "حماس کے ردعمل نے گروپ کے اس موقف کی تصدیق کی ہے کہ کسی بھی معاہدے کو ’’ہمارے لوگوں پر صیہونی جارحیت کو ختم کرنا ہوگا، اسرائیلی فورسز کو باہر نکالنا ہوگا، غزہ کی تعمیر نو کرنا ہوگی اور اس کے نتیجے میں قیدیوں کے تبادلے کا کوئی سنجیدہ معاہدہ ہونا چاہیے"۔
SEE ALSO: امریکہ غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالے: حماسامریکی صدر جو بائیڈن نے جنگ بندی کی تجویز کی تفصیلات کو عوامی طور پر بیان کیا ہے اور دوسرے امریکی عہدےدار بار ہا زور دے چکے ہیں کہ یہ ایک اسرائیلی تجویز ہے۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے منگل کو کہا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس معاہدے سے اپنی وابستگی کی از سر نو توثیق کی ہے ۔
کچھ ممکنہ اختلافی نکات ابھی باقی ہیں جن میں حماس کا یہ مطالبہ ہےکہ اسرائیل غزہ سے اپنی فورسز نکال لےاور اسرائیل کا اس چیز کو یقینی بنانے کا بیان کردہ عزم کہ عسکریت پسند گروپ اسرائیل پر مستقبل میں کوئی حملہ نہ کر سکے ۔
اس رپورٹ کا کچھ مواد اے ایف پی، اے پی اور رائٹرز سے لیا گیاہے۔