امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکی شہریوں کی تعداد اندازاً 6000 تھی، جن میں سے 4500 کا انخلا ہو چکا ہے، جب کہ باقی 1500 شہریوں کو وہاں سے نکالنا ابھی باقی ہے۔
بقول ان کے، ''ان میں سے 500 امریکی شہریوں سے پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران رابطہ کیا جا چکا ہے، اور انہیں بتایا گیا ہے کہ کس طرح وہ ایئرپورٹ تک پہنچ سکتے ہیں''۔
بدھ کے روز انخلا سے متعلق خصوصی پریس بریفنگ کے دوران بلنکن نے واضح کیا کہ گرین کارڈ ہولڈر انخلا کے زمرے میں نہیں آتے، اور امریکی شہری وہ افراد ہیں جن کے پاس امریکی پاسپورٹ موجود ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر ایئرپورٹ پر موجود امریکی حکام طالبان سے رابطہ کرتے رہتے ہیں، اور جن لوگوں کے پاس قانونی دستاویز موجود ہیں انھیں ایئرپورٹ تک آنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
صدر جو بائیڈن کے منگل کے خطاب میں انخلا سے متعلق 31 اگست کی حتمی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے، وزیر خارجہ نے کہا کہ ''ہماری یہی کوشش ہے کہ تب تک انخلا کا جاری کام مکمل کیا جائے''۔
انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ امریکی شہریوں کو بحفاظت افغانستان سے نکال لیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ جہاں تک ان افغان اتحادیوں، مترجموں اور دیگر کا تعلق ہے جن میں ممکن ہے کچھ تعداد بر وقت ملک سے باہر نہ آ پائے، ان کی مدد جاری رکھی جائے گی کہ وہ 31 اگست کی حتمی تاریخ کے بعد بھی افغانستان سے باہر آ سکیں۔
اس سلسلے میں، اینٹنی بلنکن نے کہا کہ طالبان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ایسے افغان باشندوں کے بحفاظت انخلا میں تعاون کیا جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ بدھ تک افغانستان سے 82 ہزار 300 افراد کو نکالا جا چکا تھا جب کہ دیگر افراد کا انخلا جاری ہے۔
پچھلے 24 گھنٹے کے دوران کابل سے 19،000 افراد کو ملک سے نکالا گیا۔ ان 24 گھنٹوں میں مجموعی طور پر 90 فلائیٹس روانہ ہوئیں، یعنی ہر 16 منٹوں میں ایک طیارے نے اڑان بھری۔
کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر گزشتہ دنوں کی بد نظمی اور افراتفری روکنے کے لیے اب مختلف انتظامات کیے گئے ہیں جن کے تحت انخلا کرنے والوں کو شہر سے ٹرانسپورٹ کے ذریعے ایئرپورٹ لایا جا رہا ہے۔
دوسری جانب طالبان نے ان تمام لوگوں کو ایئرپورٹ کی طرف جانے سے روک دیا ہے جن کے پاس دستاویزات موجود نہیں ہیں۔