طالبان کی جانب سے کچھ میڈیا ورکرز کی تلاش کی رپورٹس آنے کے بعد صحافیوں کے انخلا کا عمل تیز کر دیا گیا ہے۔
میڈیا کے حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پچھلے ہفتے طالبان کی جانب سے پانچ صحافیوں کے گھروں کی تلاشی لی گئی ہے۔
جمعے کے روز مسلح افراد نے 'انعکاس ٹی وی' کے سربراہ زلمے لطیفی کے زیر ملکیت عمارت کی تلاشی لی، آفس کا سامان ضبط کیا اور ان کی گاڑی بھی ساتھ لے گئے۔
صحافیوں کی بین الاقوامی فیڈریشن کے مطابق زلمے لطیفی روپوش ہو چکے ہیں اور ٹی وی سٹیشن کی جانب سے نشریات پہلے ہی بند کی جا چکی ہیں۔
جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے اور میڈیا کے حقوق کی تنظیموں کے مطابق ڈوئچے ویلے سے تعلق رکھنے والے صحافیوں اور ایک فری لانس سٹرنگر کے گھروں کی تلاشی لی گئی۔ اس دوران ایک صحافی کا رشتے دار ہلاک بھی ہوا ہے۔
انعکاس ٹی وی اس سے پہلے اپنا ایک آفس جلال آباد شہر سے ہٹا کر کابل لا چکا ہے۔ دسمبر سے اب تک اس ٹی وی کے چار ملازم ہلاک ہو چکے ہیں جو سب کی سب خواتین تھیں۔
اس حملے کی ذمہ داری داعش کی خراسان شاخ نے لی۔ گروپ کا کہنا تھا کہ یہ خواتین حکومت کے حامی میڈیا گروپس کے ساتھ کام کرتی تھیں۔
غیر یقینی صورت حال
صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ان کے گھروں کی تلاشی لینے کی رپورٹس طالبان کی جانب سے کی گئی پہلی پریس کانفرنس کے ایک ہفتے بعد سامنے آئی ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق طالبان کے ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ میڈیا بالکل آزاد ہے اور طالبان نے ان تمام لوگوں کو جو امریکہ یا مغربی حکومتوں کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں، عام معافی دے دی ہے۔
منگل کے روز ایک اور پریس کانفرنس میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ گروپ میڈیا کے اداروں کے مسائل پر غور کرے گا۔
ان کے مطابق ’’شاید ایسے چھوٹے موٹے واقعات ہوئے ہوں، یا ہمارے جنگجو آپ کے دفتروں کے نزدیک پہنچے ہوں۔‘‘
انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ’’ہم میڈیا اداروں کے نزدیک سے اپنے جنگجو ہٹا رہے ہیں، تاکہ آپ آرام سے کام کر سکیں۔‘‘
انہوں نے خواتین صحافیوں کو بتایا کہ انہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک رپورٹر سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’آپ شہری ہیں، صحافی ہونا کوئی جرم نہیں، آپ کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اپنے صوبے میں کام کے لیے واپس جا سکتی ہیں۔‘‘
امریکہ سے تعلق رکھنے والی تنظیم انٹرنیشنل ویمن میڈیا فاؤنڈیشن نے کہا ہے کہ طالبان کے دعوے ان رپورٹس سے میل نہیں کھاتے جو وہ افغان میڈیا سے سن رہے ہیں۔
سرکاری ٹی وی کی خواتین صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں طالبان نے کہا ہے کہ وہ گھروں میں بیٹھیں۔ ان کے نیوز رومز پر طالبان کی جانب سے قبضہ کر لیا گیا ہے۔
تنظیم کی ڈپٹی ڈائریکٹر ندینے ہوف مین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’ہمیں موقع پر موجود صحافیوں نے بتایا ہے کہ طالبان انہیں تلاش کر رہے ہیں، وہ ان کے گھروں میں بھی پہنچے ہیں، وہ بہت گھبرائے ہوئے ہیں۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ بہت سی خواتین نے انہیں کہا ہے کہ جس کے لیے انہوں نے 20 برس کام کیا، وہ سب کچھ راتوں رات ہی ختم ہو گیا ہے۔