|
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے بدھ کے روز اسرائیل اور عسکریت پسند گروپوں حماس اور حزب اللہ کے درمیان لڑائی کو روکنے پر زور دیا، لیکن لبنان کے ایک تاریخی بندرگاہی شہر پر اسرائیل کے بھاری فضائی حملوں نے یہ ظاہر کیا کہ وہاں لڑائی میں کوئی وقفہ نہیں تھا۔
جنوبی لبنان میں یونیسکو کے تاریخی ورثے میں شامل بندرگاہی شہر،طائر پر اسرائیل کی بمباری سے ہائشی عمارتوں کے اوپر دھوئیں کے گہرےبادل چھا گئے۔ اس نے یہ بمباری علاقےسے انخلا کا آن لائن حکم جاری کرنے کے تقریباً تین گھنٹے بعد شروع کی تھی ۔
اسرائیل کی جانب سے لبنان میں حزب اللہ اور غزہ میں حماس کو تباہ کرنے کی ایک مہم میں تیزی کے بعد طائر سے ہزارو ں لوگ پہلے ہی فرار ہو چکے ہیں ۔ یہ دونوں گروپ اسرائیل کے پرانے دشمن ایران کے قریبی اتحادی ہیں ۔
یہ بندر گاہ جنوب میں ایک با رونق مرکز ہے جہاں ماہی گیر، سیاح اور حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے امن کار بھی سرحد کے قریب اپنی تعیناتی کے دوران کسی وقفے میں سمندر کے کنارے وقت گزارتے ہیں ۔ لیکن اسرائیل کے انخلا کے احکامات میں پہلی بار طائر کے علاقوں کو اس کے قدیم قلعے تک شامل کیا گیا ہے ۔
طائر کے مئیر حسن دبوق نے کہا کہ شہر کے تاریخی مقامات کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔وزیر ثقافت محمد المرتضیٰ نے کہا کہ وزارت شہر کے لوگوں اور اس کےثقافتی ورثےکے مقامات کی حفاظت کے حوالے سے یونیسکو کے ساتھ رابطے میں ہے ۔
SEE ALSO: شمالی لبنان میں اپارٹمنٹ بلڈنگ پر اسرائیلی فضائی حملے میں 21 افراد ہلاک ہو گئےپچیس سالہ باتوم زلغوت نے جو انخلا کے ایک تازہ ترین زون سے فرار ہو کر شہر کے ایک اور حصے میں پہنچی تھیں کہا، ’’ ہم سڑک پر رہنے کے بجائےوقار سے مرنے کو بہتر سمجھتے ہیں۔" ۔ انہوں نے کہا کہ وہ پہلے ہی اپنے دو بچوں کے ساتھ پانچ بار بے گھر ہو چکی ہیں کیونکہ اسرائیل نے پورے لبنان میں اپنے حملوں میں اضافہ کیا ہے ۔
صدارتی انتخابات سے قبل امن کےلیے امریکہ کی آخری بڑی کوشش
بلنکن، جو غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے باقاعدگی سے مشرق وسطیٰ کا سفر کرتے رہے ہیں ، اسرائیل کی طرف سے اپنے انتہائی مطلوب دشمن، حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کی ہلاکت کے بعد اپنا پہلا دورہ کر رہے ہیں، جن کی موت سےواشنگٹن کو امید ہے کہ امن کے لیے ایک تحریک فراہم کر سکتی ہے۔
SEE ALSO: مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال، امریکی وزیرِ خارجہ کا ایک سال میں خطے کا 11واں دورہیہ دورہ پانچ نومبر کے صدارتی انتخابات سے قبل امن کےلیے دباؤ ڈالنے کی امریکہ کی آخری بڑی کوشش بھی ہے۔ ان انتخابات کے نتیجے سے خطے میں امریکی پالیسی متاثر ہو سکتی ہے۔
واشنگٹن کا مقصد تہران کی طرف سے حزب اللہ اور حماس کے ساتھ یکجہتی کے طور پر یکم اکتوبر کو کیے جانے والے ایرانی میزائل حملے کے جواب میں متوقع اسرائیلی کارروائی کےپیش نظر تنازع کو مزید پھیلنے سے روکنا ہے۔
بلنکن نے کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ اسرائیل اپنی فوجی کامیابیوں کو پائیدار اسٹریٹجک کامیابیوں میں بدلے ۔ انہو ں نے کہا،’’اب توجہ اس پر مرکوز ہونی چاہیے کہ یرغمالوں کو واپس گھر لایا جائے، جنگ کا خاتمہ ہو اور مستقبل کے لیے ایک واضح منصوبہ سامنے ہو۔‘‘
بلنکن نے بدھ کے روز کہا کہ اسرائیل کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں مزید کشیدگی پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ بلنکن کی اسرائیل سے روانگی کے بعد ، وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے ایک فوجی اڈے کا دورہ کیا اور فوجیوں سےکہا کہ ایک بار جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو ہر کوئی ان کی طاقت کو سمجھ جائے گا۔
SEE ALSO: ایران کو اپنی بڑی غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، نیتن یاہوبلنکن کا سعودی عرب کا دورہ
بلنکن نے وزیراعظم نیتن یاہو سمیت اسرائیلی حکام سے ملاقات کے بعد، علاقائی طاقت سعودی عرب کا دورہ کیa ، جہاں انہوں نے ڈی فیکٹو حکمران ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔
محکمہ خارجہ نے کہا کہ انہوں نے غزہ جنگ کے خاتمے اور لبنان میں لڑائی روکنے کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا۔
غزہ میں، جہاں اسرائیل نے گزشتہ ہفتے حماس کے رہنما کی ہلاکت کے بعد سے علاقے کے شمالی کنارے پر حملہ تیز کر دیا ہے، صحت کے حکام نے تازہ اسرائیلی حملوں میں ،زیادہ تر شمال میں،کم از کم 20 افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے۔
واشنگٹن نے اپنے اتحادی اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کے لوگوں کی مدد کے لیے مزید اقدامات کرے۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ غزہ میں انسانی صورتحال سے نمٹنے میں ناکامی کے نتیجے میں مزید شورش پسند پیدا ہو سکتے ہیں۔ اسرائیل جنگ کے علاقے سے میں امداد روکنے کی تردید کرتا ہے۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔