امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے جمعرات کے روز کہا ہے کہ روس نے یوکرین کی سرحدوں سے کچھ فوجیں تو واپس بلا لی ہیں،لیکن ابھی تک اس کی فوج کی خاطر خواہ تعداد اور ساز و سامان وہیں موجود ہے اور امریکہ چاہتا ہے کہ روس اپنے جارحانہ اقدامات کو ختم کرے۔
یوکرین کے دارالحکومت کیئو میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زلینسکی کے ہمراہ بات کرتے ہوئے، بلنکن کا کہنا تھا کہ روس کے پاس اب بھی یہ اہلیت ہے کہ اگر وہ چاہے تو بہت تھوڑے وقت میں جارحانہ کارروائی کر سکتا ہے۔
بلنکن کا کہنا تھا کہ امریکہ اِن اشتعال انگیز اقدامات کے دوران یوکرین کی جانب سے تحمل کے مظاہرے کو سراہتا ہے۔
گزشتہ ماہ، امریکہ اور یورپی یونین کے سینئر عہدیداروں کا کہنا تھا کہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ روسی افواج یوکرین کے کرائمیا سے متصل سرحد پر اکٹھا ہو گئی تھی۔افواج کی اتنی بڑی تعداد اس وقت بھی تعینات نہیں تھی، جب روس نے سن 2014 میں کرائمیا پر قبضہ کیا تھا۔
روس کا کہنا ہے کہ اس کی افواج فوجی مشقوں میں حصہ لے رہی تھیں، اور اپریل کے اواخر سے اپنی چھاؤنیوں کو واپس جا رہی ہیں۔
دوسری طرف زلینسکی نے جمعرات کے روز کہا کہ سرحدی علاقے میں خطرہ ابھی تک موجود ہے، اور یوکرین کسی قسم کے اچانک حملے سے بچنا چاہتا ہے۔
بلنکن کا کہنا تھا کہ امریکہ، یوکرین کیلئے مزید عسکری امداد دینے پر غور کر رہا ہے، اور حال ہی میں منعقدہ نیٹو اور جی سیون گروپ کے اجلاسوں میں روسی اقدامات پر کھل کر بات ہوئی ہے۔
امریکی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ جمعرات کو ہونے والی بات چیت میں منسک (Minsk)معاہدے پر بھی بات چیت ہوئی، جس کا مقصد مشرقی یوکرین میں تنازعہ کو ختم کرنا ہے۔ روس مشرقی یوکرین کے ڈون باس علاقے میں روس نواز علیحدگی پسندوں کی حمایت کر رہا ہے۔
بلنکن کا کہنا تھا کہ امریکہ اس تنازعے کے حل کیلئے سفارتی کوششوں میں پیش رفت کیلئے راستے تلاش کرتا رہے گا، جبکہ روس بدستور ایک سرکش فریق ہی بنا ہوا ہے۔
ملاقات کے دوران، زلینسکی اور بلنکن نے یوکرین میں جمہوری اصلاحات متعارف کروانے اور کرپشن کے خلاف جنگ کیلئے کی جانے والی کاوشوں پر بھی بات کی۔