جمعرات کو میانمار کی ریاست راکھین کے ایک ریسکیو عہدے دار نے بتایا کہ روہنگیا اقلیت کے تارکین وطن کی ایک کشتی خلیج بنگال میں ڈوب گئی جس کے نتیجے میں کم از کم 17 لوگ ہلاک اور تقریباً 30 لاپتہ ہیں۔
شوے یانگ میٹا فاؤنڈیشن کے جنرل سیکرٹری، Byar La ، نے بتایا کہ گزشتہ اختتام ہفتہ میانمار کی مغربی ریاست راکھین کی بستی Buthidaung سے روانہ ہونے والی اس کشتی میں تقریباً 55 لوگ سوار تھے ۔
انہوں نے بتایا کہ راکھین کے دار الحکومت ستوے کے قریب سمندر میں ہونے والے اس حادثے میں 8 لوگ ہلاک ہوئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ کشتی ملائیشیا جا رہی تھی اور اس کی روانگی کا درست وقت اور کشتی ڈوبنے کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی ہے۔
Byar La نے کہا کہ پیر اور بدھ کے درمیان دار الحکومت Naypyitaw کے مغرب میں لگ بھگ 335 کلومیٹر پر ستوے کے ساحل کے قریب10 خواتین سمیت 17 لاشیں بازیاب ہوئیں۔ زندہ بچ جانے والے 8 لوگوں کو میانمار کی سیکیورٹی فورسز لے گئیں ۔ ریسکیو ٹیمیں اور عہدے دار لاپتہ افراد کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دنیا بھر میں بہتر مستقبل کی تلاش میں سفر کے خطرناک غیر قانونی راستے اختیار کرنے کا سلسلہ ان دنوں بہت بڑھ گیا ہے ۔افریقی ملکوں کے ساحلوں سے خستہ حال کشتیوں پر سوار سینکڑوں تارکین وطن بحیرہ روم کا خطرناک سفر کر کے یورپی ملکوں میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
جب کہ بودھ اکثریت کے ملک میانمار میں استبداد کی شکار مسلم روہنگیا اقلیت کے ارکان بھی اپنے بہتر مستقل کے لئے ایسا ہی کچھ کررہے ہیں ۔ وہ غیر محفوظ کشتیوں پر سوار ہو کر خلیج بنگال کی شوریدہ موجوں کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرتے ہوئے مسلم اکثریتی ملکوں ، ملائیشیا اور انڈو نیشیا پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں۔
راکھین کے اٹارنی جنرل Hla Thein نے کہا کہ پیر کے روز سے ملنے والی ان نعشوں کی صحیح تعدا د اور دوسری تفصیلات ابھی تک دستیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ انہوں نے فون پر کہا کہ میں نےصرف یہ سنا ہے کہ وہ کشتی غیر قانونی طور پر روانہ ہوئی تھی اور خلیج بنگال میں ڈوبی تھی۔
روہنگیا ،جو ایک مسلم اقلیت ہے ، ایک عرصے سے بودھ اکثریتی ملک میانمار میں ظلم و ستم کا شکار ہے۔ انہیں تعلیم سمیت نقل و حرکت کی آزادی اور دیگر حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے ۔
اگست 2017 سے جب سے فوج نے ایک باغی گروپ کے حملوں کے جواب میں اقلیت کا صفایا کرنے کے لیے ایک کارروائی شروع کی ہے، اب تک سات لاکھ سے زیادہ روہنگیا میانمار سے بھاگ کر بنگلہ دیش کے پناہ گزیں کیمپوں میں پناہ لے چکے ہیں۔
بنگلہ دیش میں گنجائش سے زیادہ بھرے ہوئے پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والوں کے علاوہ، 100,000 سے زیادہ روہنگیا میانمار میں رہ گئے ہیں، جو خستہ حال کیمپوں تک محدود ہیں۔
دونوں ممالک کے کیمپوں سے روہنگیا کے گروپس بہتر زندگی کی تلاش میں ملائیشیا اور انڈونیشیا کے مسلم اکثریتی ممالک کے لیے خطرناک سفر کا سلسلہ شروع کر چکے ہیں۔
میانمار کی فوج نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ سکیورٹی فورسز اس کارروائی میں اجتماعی زیادتیوں، قتل و غارت گری او ر ہزاروں گھروں کو جلانے کی مرتکب ہوئی ہے۔ امریکی حکومت نے فوج کے اقدامات کو نسل کشی قرار دیا ہے۔
روہنگیا کے بہت سے خاندان کئی دہائیوں سے میانمار میں مقیم ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر کو میانمار نے شہریت دینے سے انکار کر دیا ہے ۔حکام کا کہنا ہے کہ روہنگیا بنگلہ دیش سے غیر قانونی ہجرت کرکے میانمار آئے ہیں۔
( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیاہے)