بالی وڈ کے مزاحیہ اداکار اور معروف ہدایت کار ستیش کوشک چل بسے

فائل فوٹو

بالی وڈ کے مزاحیہ اداکار اور ہدایت کار ستیش کوشک کا دل کا دورہ پڑنے کے باعث جمعرات کو انتقال ہو گیا ہے۔

بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق ستیش جمعرات کو اپنے کسی عزیز سے ملاقات کے لیے دہلی کے نواح جا رہے تھے کہ انہیں گاڑی میں دل کا دورہ پڑا جس پر انہیں اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔

ستیش کے قریبی دوست اور ساتھی اداکار انوپم کھیر نے ان کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ " 45 سال کی دوستی کا ایسا اچانک خاتمہ، آپ کے بغیر زندگی کبھی پہلے جیسی نہیں ہو گی ستیش۔"

انوپم کھیر نے مزید لکھا کہ "میں جانتا ہوں کہ موت اس دنیا کی آخری سچائی ہے لیکن میں نے خوابوں میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اپنے بہترین دوست کے بارے میں ان کی موت سے متعلق لکھوں گا۔‘

ستیش نے منگل کو معروف ادیب جاوید اختر اور فلم انڈسٹری کے نامور فن کاروں کے ساتھ ہولی کی تقریب کی تصاویر شیئر کی تھیں۔

ستیش اپریل 1956 میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کی جس کے بعد انہوں نے نیشنل اسکول آف ڈرامہ اور فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا سےاداکاری اور ہدایت کاری کی تعلیم حاصل کی۔

انہوں نے بالی وڈ کی متعدد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں مسٹر انڈیا، جانے بھی دو یارو اور رام لکھن نمایاں ہیں۔

اپنے فلمی کرئیر کا آغاز اسی کی دہائی میں معاون کرداروں سے کرنے والے ستیش کوشک نے 1983 میں ہدایت کار کندن شاہ کی فلم 'جانے بھی دو یارو' میں نہ صرف اداکاری کی بلکہ فلم کے مکالمے بھی لکھے جنہیں دیکھنے والوں نے خوب سراہا۔

ستیش نے اپنے فنی کریئر کے دوران دو مرتبہ بہترین کامیڈین کا فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا۔ انہیں 1990 میں فلم رام لکھن اور پھر 1997 میں ساجن چلے سسرال میں بہترین اداکاری پر ان ایوارڈز سے نوازا گیا۔

ستیش کا ہدایت کاری کے میدان میں قدم

ستیش نے نوے کی دہائی میں ہدایت کاری کی دنیا میں فلم 'روپ کی رانی چوروں کا راجا' میں ہدایت کاری سے قدم رکھا ۔ انہوں نے 2003میں ریلیز ہونے والی سلمان خان کی مشہور فلم 'تیرے نام' کی ہدایت کاری بھی کی۔

ستیش اپنے متعدد انٹرویوز میں کہہ چکے ہیں کہ لوگ انہیں نوے کی دہائی کی سب سے بڑی فلاپ 'روپ کی رانی چوروں کا راجہ' کی وجہ سے جانتے ہیں۔ اس فلم میں کام کرنے والے زیادہ تر فن کار وہی تھے جنہوں نے چند سال پہلے شیکھر کپورکی 'مسٹر انڈیا' میں کام کیا تھا۔ چوں کہ ستیش نے 'مسٹر انڈیا' میں ہدایت کار کی معاونت کی تھی۔ اس لیے پروڈیوسر بونی کپور اور ڈائیلاگ رائٹر جاوید اختر نے انہیں فلم کی ہدایت کاری کے لیے منتخب کیا۔

لیکن انیل کپور اور سری دیوی کی موجودگی کے باوجود یہ فلم باکس آفس پر اچھا بزنس نہ کرسکی اور ستیش کوشک کے بطور ہدایت کار کریئر شروع ہوتے ہی بریک لگ گیا، لیکن اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہ ہاری ۔

چند سال بعد انہوں نےپہلے 'پریم' اور 'مسٹر بیچارا' بنائیں اوروہ بھی فلاپ ہوئیں، لیکن اس کے بعد آنے والی انیل کپور کے ساتھ ان کی 'ہمارا دل آپ کے پاس ہے' اور 'ہم آپ کے دل میں رہتے ہیں' باکس آفس پر اچھا بزنس کرنے میں کامیاب ہوئیں۔

سن 2003 میں ان کی فلم 'تیرے نام' اس قدر مقبول ہوئی کہ نوجوانوں نے فلم کے ہیرو سلمان خان کے ہیئر اسٹائل سے لے کر بات کرنے کے انداز کو اپنانا شروع کردیا تھا۔ اس فلم نے نہ صرف سلمان خان کے کرئیر کو طول دیا بلکہ ستیش کوشک کے بطور ہدایت کار کریئر کو بھی فلاپ سے ہٹ میں بدل دیا۔


لیکن ستیش کےمداح انہیں ایک ہدایت کار سے زیادہ ایک مزاحیہ اداکار کے طور پر جانتے ہیں جنہوں نے پانچ دہائیوں تک انہیں صرف ہنسایا ہی نہیں بلکہ چند ایسے کرداروں سے ملایا جنہیں بھلایا نہیں جاسکتا۔

وہ کردار جو ستیش نے ایک نہیں، دو فلموں میں ادا کیا

نیشنل اسکول آف ڈرامہ اور فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا سے فارغ التحصیل ہونے والے ستیش نے چند ایسے کردار کیے ہیں جنہیں مداح کبھی نہیں بھول پائیں گے۔

سن 1997 میں گووندا اور انیل کپور کی ریلیز ہونے والی فلم 'دیوانہ مستانہ' میں ستیش نے ایک ایسے کنٹریکٹ کلر کا کردار ادا کیا تھا جس کی ڈریسنگ کے ساتھ ساتھ بولنےکا اسٹائل بھی نرالا تھا۔اس کردار کا نام 'پپو پیجر' تھا اور اس کے مکالمے اور اسٹائل فلم کے ہٹ ہونے کی ایک بڑی وجہ تھی۔

ویسے تو یہ کردار اسکرین پر صرف تھوڑی ہی دیر کے لیے آتا ہے لیکن یہ ستیش کوشک کا ٹریڈمارک کردار بن گیا جس کے بارے میں وہ اسٹیج شوز اور ٹی وی شوز پر بھی بات کرتے تھے۔

یہ کردار اس قدر مشہور ہوا تھا کہ بعد میں ہدایت کار ڈیوڈ دھون نے اپنی ایک اور فلم 'ہم کسی سے کم نہیں' میں بھی اسے استعمال کیا لیکن یہ فلم نہیں چل سکی۔

کیلنڈر ، پاکستانی اداکار سلیم ناصر کے کردار اکبر کو دیکھ کر لکھا گیا

سن 1987 میں جب 'مسٹر انڈیا' ریلیزہوئی تو اس نے دنیا بھر میں دھوم مچادی تھی۔ ستیش کوشک نے اس فلم میں مرکزی ہیرو انیل کپور کے دوست اور باورچی کا کردار ادا کیا تھا جس کے والدین نے اس کا نام' کیلنڈر ' اس لیے رکھا تھا کیوں کہ وہ انگریزی میں کوئی نام رکھنا چاہتے تھے۔

اس کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ پاکستانی ڈرامے 'آنگن ٹیڑھا' میں اداکار سلیم ناصر کے کردار اکبر سے متاثر ہوکر انہوں نے یہ کردار نبھایا ۔

فلم کی لائن 'کیلنڈر کھانا دو' اس قدر مشہور ہوئی کہ' پپو پیجر' کے مشہور ہونے سے قبل انہیں لوگ اسی طرح سے یاد رکھتے تھے۔

کاشی رام کے کردار پر پہلا فلم فئیر ایوارڈ

سن 1989 میں فلم ہدایت کار سبھاش گھائی کی فلم'رام لکھن ' میں جہاں راکھی، جیکی شروف، انیل کپور، مادھوری ڈکشٹ اور ڈمپل کپاڈیہ تھیں وہیں انوپم کھیر، امریش پوری، گلشن گرور اور رضا مراد بھی اس کا حصہ تھے۔

ایسے میں ستیش کوشک نے کاشی رام کا مزاحیہ کردار اس احسن طریقے سے نبھایا کہ اسٹار کاسٹ کی موجودگی میں شائقین کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑ گئے۔ اس پرفارمنس پر انہیں ان کے کریئر کا پہلا بیسٹ کامیڈین کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا تھا۔

سن1996 میں کامیاب ہونے والی فلم 'ساجن چلے سسرال' میں شاندار اداکاری پر ستیش کو ان کے کریئر کا دوسرا بیسٹ کامیڈین کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ اس فلم میں انہوں نے ایک ایسے طبلہ نواز متھو سوامی کا کردار ادا کیا تھا جو گاؤں سے آنے والے شیام سندر کی مدد کرتا ہے اور اسےشہر کی زندگی کے بارے میں بتاتا ہے۔

گووندا، سنجے دت ، قادر خان ، انوپم کھیر اور پاریش راول کی موجودگی میں اگر کسی اداکار نے اپنی جگہ بطور کامیڈین منوائی تو وہ 'حسینہ مان جائے گی' میں ستیش کوشک تھے۔فلم میں انہوں نے قادر خان کے کردار امیرچند کے منشی کنج بہاری کا رول اس طرح نبھایا کہ ہر کردار کے ساتھ ان کی کیمسٹری بہترین رہی۔

یہی نہیں، امیتابھ اور گووندا کے ساتھ ان کی فلم 'بڑے میاں چھوٹے میاں' میں اداکاری کو بھی سب نے بہت پسند کیا جب کہ نصیرالدین شاہ کی فلم 'جلوہ' میں بھی بگ بی کے ساتھ ان کا ایک سین سب کو آج بھی یاد ہے۔