|
موسمِ سرما کی شام ایک بزنس مین اپنے آفس سے نکل کر گاڑی کی طرف جا رہے تھے کہ اچانک دو نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کر دی۔
ایک گولی ان کے بائیں بازو پر لگی اور دوسری سینے کو چھوتے ہوئے نکل گئی۔ اتنے میں دونوں شوٹرز فرار ہو گئے۔
شدید زخمی ہونے کے باوجود وہ پہلے خود گاڑی ڈرائیو کر کے قریبی پولیس اسٹیشن پہنچے جہاں سے انہیں اسپتال منتقل کیا گیا۔
یہ سین کسی ہالی وڈ یا بالی وڈ فلم کا نہیں بلکہ 21 جنوری 2000 کو پیش آنے والے اُس واقعے کی تفصیلات ہیں جب معروف بھارتی اداکار، ہدایت کار و پروڈیوسر راکیش روشن پر حملہ کیا گیا تھا۔
راکیش روشن کو کچھ عرصے سے اندرورلڈ کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں جسے وہ نظر انداز کر رہے تھے۔ بعدازاں فلم 'کہو نہ پیار ہے' کی کامیابی کے بعد ان پر یہ حملہ ہوا۔
راکیش روشن پر یہ حملہ مبینہ طور پر علی بُدیش نامی گروہ نے کروایا تھا۔
حال ہی میں بالی وڈ اداکار سلمان خان کے گھر کے باہر بھی فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس کی ذمے داری گینگسٹر لارنس بشنوئی کے بھائی نے قبول کی ہے۔ البتہ اداکار کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا۔
بالی وڈ میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جب کسی اداکار پر حملہ ہوا ہو۔ بلکہ 90 کی دہائی سے گینگسٹر کلچر نے فلم انڈسٹری کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔
جب معروف پروڈیوسر کو اغوا کر کے تاوان طلب کیا گیا
ممبئی اور اندرورلڈ کا پولیس سے پہلا ٹاکرا سن 1982 میں اُس وقت ہوا جب بیراگ، محبوبہ اور شکتی جیسی فلمیں پروڈیوس کرنے والی جوڑی 'مشیر-ریاض' کے ایک پارٹنر مشیر عالم کو دن دہاڑے ان کی گاڑی سے اغوا کیا گیا۔
مشیر عالم اور محمد ریاض 'مشیر-ریاض' نامی پروڈکشن کے تحت فلمیں بناتے تھے۔
اغواکاروں نے مشیر عالم سے 25 لاکھ روپے ڈیمانڈ کیے لیکن ان کے پارٹنر محمد ریاض صرف دو لاکھ 28 ہزار روپے کا ہی انتظام کر سکے۔
ممبئی انڈرورلڈ پر مستند کتاب 'ڈونگری ٹو دبئی' میں صحافی حسین زیدی لکھتے ہیں کہ تاوان کی ادائیگی کے بعد مشیر عالم کو تو چھوڑ دیا گیا تھا لیکن ان کی متعدد فلموں میں ہیرو کا کردار ادا کرنے والے دلیپ کمار اس سے بالکل مطمئن نہیں تھے۔
دلیپ کمار کو جب معلوم ہوا کہ مشیر عالم کو اغوا کر کے ان سے تاوان طلب کیا گیا تھا تو انہوں نے پولیس کو اس معاملے سے آگاہ کیا۔
SEE ALSO: مہیش بھٹ کی فلم نے پروین بابی کا کریئر کیسے ختم کیا؟بعدازاں پولیس نے اس اغوا میں ملوث 'پٹھان گینک' کے اہم رکن عالم زیب خان کو گرفتار کر لیا تھا۔عالم زیب خان پر جہاں کئی مقدمات تھے وہیں وہ پولیس کو مخالف ڈان داؤد ابراہیم کے بڑے بھائی شبیر کے قتل میں بھی مطلوب تھے۔
اس واقعے کے بعد انڈر ورلڈ ممبئی کی فلم نگری کے معاملات سے کئی عرصے تک دور رہا۔
'ڈونگری ٹو دبئی' کے مطابق ممبئی کے ڈان داؤد ابراہیم اور ان کے ساتھیوں نے فلم انڈسٹری کو پہلے بھتے اور پھر فلموں میں حصے کے لیے آہستہ آہستہ ٹارگٹ کرنا شروع کیا۔
جب ممبئی کے ڈان کے ڈر سے کرن جوہر ہوٹل کے کمرے میں چھپے رہے
نوے کی دہائی میں ممبئی کے گینگ 'ڈی کمپنی' کے سرغنہ ابو سالم نے معروف ہدایت کار و پروڈیوسر سبھاش گھئی کو دھمکانے کی کوشش کی تھی جو پولیس نے ناکام بنا دی تھی۔
سن 1997 میں ابو سالم نے ہی بھتہ نہ دینے پر فلم تری دیو، مہرا اور گپت جیسی ہٹ فلموں کے ہدایت کار راجیو رائے کے دفتر پر حملہ کروایا تھا، جو گارڈز نے ناکام بنا دیا۔
اس حملے کے بعد راجیو رائے اور ان کی اہلیہ اداکارہ سونم بیرونِ ملک منتقل ہو گئے اور دونوں نے کچھ عرصے تک فلموں سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔
حسین زیدی کی ایک اور کتاب 'مائی نیم از ابو سالم' کے مطابق جب راجیو رائے نے چند برسوں بعد فلم 'پیار عشق اور محبت' کے ذریعے کم بیک کیا تو ابو سالم نے زبردستی فلم کی کاسٹ میں اپنی گرل فرینڈ مونیکا بیدی کو شامل کرایا۔ بعدازاں ہدایت کار کی فلم سے دلچسپی کم ہوگئی تھی۔
اس سے قبل بھی ممبئی کے انڈرورلڈ ڈان ابو سالم نے اجے دیوگن کی فلم 'راجو چاچا' کی ریلیز آگے بڑھانے کا کہا تھا لیکن اس کے باوجود فلم ریلیز کر دی گئی۔ فلم ریلیز کرنے کے نتیجے میں ابو سالم نے اجے دیوگن کے سیکریٹری کمار منگل کو دھمکایا۔
بھارتی ہدایت کار کرن جوہر نے بھی اپنی کتاب 'این اَن سوٹیبل بوائے' میں لکھا کہ "ابوسالم نے فلم کچھ کچھ ہوتا ہے کی ریلیز مؤخر کرنے کے لیے انہیں فون کیا تھا جس کے بعد وہ ڈر کر اپنے ہوٹل کے کمرے میں کافی دیر تک چھپے رہے تھے۔"
گلشن کمار جن کے قتل نے بھارتی حکومت کو کارروائی پر مجبور کیا
نوے کی دہائی میں بھارتی ریکارڈ کمپنی 'ٹی سیریز' نے جہاں نئے گلوکاروں کو متعارف کیا وہیں کئی موسیقار بھی اس بینر تلے پروان چڑھے۔ ایک ایسے ہی ایک موسیقار ندیم سیفی تھے جنہیں 'ندیم شرون' کی جوڑی سے مقبولیت ملی۔
کتاب 'مائی نیم از ابو سالم' کے مطابق جب ندیم سیفی کے ٹی سیریز کے مالک گلشن کمار سے تعلقات خراب ہوئے تو انہوں نے ابو سالم کا سہارا لے کر گلشن کمار کو دھکمانے کی ٹھانی۔
صحافی حسین زیدی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 12 جون 1997 کو ندیم اور ابو سالم نے دبئی میں ایک پارٹی کے دوران گلشن کمار کے قتل کا پلان بنایا۔ اس پارٹی میں بالی وڈ کی تمام بڑی شخصیات موجود تھیں۔
ندیم سیفی نے ابو سالم سے 25 لاکھ روپے کے عوض گلشن کمار کو مارنے کی بات کی اور وہ اُن سے معاملے کی اپ ڈیٹ بھی لیتے رہے۔
ابو سالم پہلے ہی گلشن کمار سےپانچ لاکھ روپے ماہانہ بھتہ ڈیمانڈ کر چکے تھے۔
SEE ALSO: جب دیوآنند نے 'اوم شانتی اوم' میں مہمان اداکار کے طور پر آنے سے منع کیاگلشن کمار کا قتل 12 اگست کو ممبئی کے اسی مندر کے سامنے ہوا جس کے بارے میں وہ ابو سالم کو بتا چکے تھے کہ ان کی ترجیح ہو گی کہ بھتہ دینے کے بجائے مندر کو چندہ دیں۔
موسیقی کی دنیا کی ایک نامور شخصیت کے قتل کے بعد بھارت کی مرکزی حکومت بھی حرکت میں آئی اور اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اندرکمار گجرال نے ممبئی پولیس کو اندرورلڈ سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ہدایت دی تھیں۔
ابو سالم اس قتل کے بعد بھارت سے فرار ہو گئے تھے لیکن پانچ سال کے اندر ہی انہیں اور ان کی گرل فرینڈ اداکارہ مونیکا بیدی کو پرتگال سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔
ندیم سیفی کو گلشن کمار کے قتل کے الزام میں پوچھ گچھ کے بعد برطانوی عدالت نے رہا کر دیا تھا اور اب وہ دبئی میں مقیم ہیں۔
جب شاہ رخ خان گانے چھیاں چھیاں کی وجہ سے مشکل میں پڑے
بالی وڈ کنگ شاہ رخ خان بھی ممبئی انڈرورلڈ کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہوئے۔ بھارتی صحافی انوپما چوپڑا اپنی کتاب 'شاہ رخ کان: کنگ آف بالی وڈ' میں لکھتی ہیں کہ "شاہ رخ خان کو جب پولیس کے ذریعے پتہ چلا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے تو وہ کافی ڈرے اور وہ ہر جگہ گارڈ کے ساتھ جانے لگے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اپنی بیوی گوری کو بھی زیادہ باہر جانے سے منع کر دیا۔"
کتاب کے مطابق جب شاہ رخ خان کی بات ابو سالم سے ہوئی تو گینگسٹر نے ان سے پہلا سوال کیا کہ وہ مسلمان فلم میکرز کے ساتھ کام کیوں نہیں کرتے؟ ابو سالم کا اشارہ اپنے ان دوستوں کی جانب تھا جو شاہ رخ خان کو کاسٹ کرنا چاہ رہے تھے۔
لیکن جب شاہ رخ خان نے انہیں عزیز مرزا، منصور خان اور عباس مستان جیسے ہدایت کاروں کے نام بتائے، جن کے ساتھ وہ اس وقت فلمیں کر رہے تھے، تو ابو سالم چپ ہو گئے۔
شاہ رخ خان کی وضاحت پر ابو سالم مطمئن ہوئے اور انہوں نے شاہ رخ خان سے کہا کہ اب پولیس کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ وہ اب انہیں نہیں ماریں گے۔ اس یقین دہانی کے باوجود شاہ رخ خان نے اپنے گارڈ کو اپنے ساتھ رکھا۔
اسی کتاب میں شاہ رخ خان نے ایک اور واقعہ بھی بتایا جس میں 'ڈی کمپنی' سے تعلق رکھنے والے چھوٹا شکیل نے فون پر ان کی فلم 'دل سے' کے گانے چھیاں چھیاں میں استعمال ہونے والے الفاظ پر اعتراض اٹھایا تھا۔ انہیں یہ اعتراض تھا کہ گانے میں 'پاؤں جنت تلے' استعمال کیا گیا ہے۔
شاہ رخ خان نے اسی فون کال میں واضح کر دیا تھا کہ اس گانے میں شاعر نے 'پاؤں جنت تلے' نہیں بلکے 'پاؤں جنت چلے' لکھا ہے اور ایسا انہیں گانا گنگنا کر بتانا پڑا تھا۔