بھارتی فلموں کی امریکی مین سٹریم سینماگھروں میں نمائش

پچھلے چند برسوں میں امریکہ میں ہندی فلموں کے حوالے سے صورتھال تیزی سے بدلی ہے۔ ہالی وڈ کی چند فلموں نے یکے بعد دیگرے سو کروڑ سے زائد کا کاروبار کیا ، اور اسی چیز نے امریکی مین سٹریم سینما گھروں میں بھی ہندی فلموں کی نمائش کو آسان کردیا۔

ایک زمانہ تھا جب امریکہ میں ہندی فلم دیکھنا ایک محال کام تھا۔ کہیں کہیں دیسی سٹوروں پر ہندی فلمیں بھی بیچی جاتی تھیں، لیکن ان میں زیادہ تر پرانی فلمیں ہی ہوتی تھیں۔ پھر کچھ نئے آنے والی فلمیں بھی آنے لگیں ، جو کرائے پر بھی مل جاتی تھیں لیکن ان کے کرائے 3 سے 5 ڈالر تک ہوتے تھے۔جو خاصے مہنگے پڑتے تھے۔ وقت نے کئی امریکی ریاستوں میں کچھ ہندی سیمنا گھر بھی قائم کردیے جہاں نئی فلموں کی نمائش کی جاتی تھی ۔ لیکن یہ سینما گھر چونکہ صرف ہندی فلموں کے لیے تھے اس لیے نہایت چھوٹے اور کم تھے۔ ہر سینما گھر میں زیادہ سے زیادہ ایک وقت میں 2 سکرینز ہی ہوتیں تھیں اور دو فلمیں ہی نمائش کے لیے پیش کی جا سکتی تھیں۔ ان سینما گھروں کی حالت بھی کچھ خاص اچھی نہیں ہوتی تھی۔ اور ان میں سہولتیں بھی بہت کم ہوتی تھیں۔

لیکن پچھلے چند برسوں میں امریکہ میں ہندی فلموں کے حوالے سے صورتھال تیزی سے بدلی ہے۔ ہالی وڈ کی چند فلموں نے یکے بعد دیگرے سو کروڑ سے زائد کا کاروبار کیا ، اور اسی چیز نے امریکی مین سٹریم سینما گھروں میں بھی ہندی فلموں کی نمائش کو آسان کردیا۔ اب امریکہ میں مین سٹریم ملٹی پلیکس سینما گھروں میں بالی وڈ فلموں یا ہندی فلموں نے اپنی جگہ بنانی شروع کر دی ہے۔ اس کی ایک اور وجہ کئی امریکی ریاستوں کے بڑے شہروں میں تیزی سے برھتی ہوئی جنوبی ایشیائی باشندوں کی تعداد بھی ہے ۔ جن میں بھارتی اور پاکستانی سب سے زیادہ ہیں۔

امریکی سینما گھروں میں بالی وڈ فلموں کی نمائش سے مقامی جنوبی ایشیائی کمیونٹی کا کیا رد عمل ہے یہ معلوم کرنے کی کوشش ہمیں واشنگٹن کے قریب واقع ایک امریکن سینما گھر ریگل تھیٹرز میں لے گئی جہاں حال میں ریلیز ہونے والی فلم فیراری کی سواری کا پریمیئر تھا۔

وہاں پہنچ کر ایسا لگا جیسے پاکستان یا ہندوستان کے کسی سینما گھر میں پہنچ گئے ہوں۔ ہالی وڈ کی آنے والی اور نمائش ہونے والے فلموں کے قد آدم پوسٹرز کےساتھ ہمیں ہندی فلموں کے بڑے بڑے پوسٹرز بھی دیکھنے کو ملے۔ لائن میں لگے کئی جنوبی ایشیائی باشندے ، جن میں زیادہ تعداد بھارتی اور پاکستانی شائقین کی تھی ، نظر آئے۔

بکاس تقریبا 70 میل کا فاصلہ طے کر کے یہ فلم دیکھنے یہاں آئے تھے ۔ ان کا کہنا تھا انھیں ان بڑے اور ملٹی پلیکس سینما گھروں میں فلمیں دیکھنے کا زیادہ مزا آتا ہے کیونکہ پرنٹ اور کوالٹی اچھی ہوتی ہے۔ بکاس کی دوست نے کہا کہ یہاں آکر گانے سننے کا اپنا ہی مزا ہے۔ ساونڈ کوالٹی دیگر چھوٹے سینما گھروں کے مقابلے میں بہت بہتر ہے ۔

ڈولی سنگھ اور ویر بھی بھارت سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں پہلے دن اور پہلے شو کی ٹکٹ ملنا تو ناممکن ہی ہوتا ہے اور پھر ٹریفک اور پارکنگ کا مسئلہ ، لیکن یہاں آکر سکون سے فلم دیکھتےہیں۔ پارکنگ آرام سے مل جاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ پہلے کے مقابلے میں اب ہمیں کئی سینما گھروں کی چوائس مل گئی ہے اگر ایک میں آپ نے شو مس کردیا تو دوسرے میں جا سکتے ہیں۔

اور آج چونکہ پریمیئر تھا ونو ونود چوپڑا کی فلم فراری کی سواری کا ، جس سے شائقین کو کافی توقعات وابستہ ہیں کیونکہ اس سے پہلے وہ منا بھائی اور تھری ایڈیٹس جیسی کامیاب اور بہترین فلمیں بنا چکے ہیں۔یہاں آنے والے لوگوں نے بھی اس فلم کو سراہا اور کہا کہ یہ ایک نہایت اچھی فیملی فلم ہے ، خاص طور پر بچوں کے لیے ۔ لوگوں نے سچن ٹنڈولکر کی فراری کو دیکھنے کے لیے بھی سینما گھروں میں اس فلم کو دیکھا۔