بوسٹن میراتھون ریس بم حملوں کو بدھ کے روز دو سال ہوگئے، جِس مناسبت سے دھماکوں کے مقام پر ایک سادہ سی تقریب منعقد ہوئی، جہاں تین افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اِس موقع پر، دو بینرز آویزاں کیے گئے، جِن پر دل کا نقش نمایاں تھا۔
تیرہ اپریل، 2013ء کے اِن دہشت گرد دھماکوں میں میئر مارٹی والش بھی زخمی ہوئے تھے۔ وہ بچ جانے والے اُس گروپ میں شامل ہوگئے ہیں، جس میں جین اور ہینری رچرڈ پہلے سے موجود ہیں، جن کا آٹھ برس کا بھائی، مارٹن سب سے چھوٹا بچہ تھا، جو اس دہشت گردی میں ہلاک ہوا؛ اور ساتھ ہی جیف بومن ہیں، جن کی دونوں ٹانگیں ضائع ہوگئی تھیں، وہ بھی اس کے رکن ہیں۔ دھماکوں میں 264 افراد زخمی ہوئے تھے، جن میں شائقین، رضاکار اور بوسٹن میراتھون دوڑ میں شریک رنرز شامل تھے۔
نیو انگلینڈ کے اس سب سے بڑے شہر میں، بدھ کو 2 بج کر 49 منٹ (ایسٹرن ٹائم) ایک تقریب منعقد ہوگی، جس میں کچھ لمحات کی خاموشی اختیار کی جائے گی، جس وقت پہلا بم پھٹا تھا۔
میساچیوسٹس کے گورنر، چارلی بیکر کے بقول، ’ہماری سوچ اور ہماری دعائیں ہلاک و زخمی ہونے والوں اور اُن کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں، جس دِن کی المناک یاد اب بھی اُن کے ذہن میں تازہ ہے‘۔
دو سال قبل سرزد ہونے والےاِن واقعات نے ہم سب کو ہمت، حوصلے اور عزم کا درس دیا۔
یہ برسی ایسے وقت آئی ہے جب زوخار سارنیف کے مقدمے کے حوالے سے ایک وقفہ سا ہے، جسے بم حملے کا الزام ثابت ہونے پر،گذشتہ ہفتے قصوروار ٹھہرایا گیا، اب وہی جیوری پھر یہ فیصلہ کرے گی آیا اُسے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے۔
اکیس برس کے زوخار سارنیف، دو بھائیوں میں چھوٹے ہیں جنھوں نے یہ حملہ کیا تھا اور تین روز بعد اُنھوں نے شہر سے بھاگنے کی کوشش کے دوران ایک پولیس اہل کار کو گولی مار کر ہلاک کیا۔ شوٹنگ کے اس واقعے کے بعد، اُن کا بڑا بھائی، 26 سالہ تمرلان ہلاک ہوا۔
جو تین افراد بم حملے میں ہلاک ہوئے وہ تھے: آٹھ برس کا مارٹن رچرڈ؛ تعلیمی تبادلے پر امریکہ آنے والی 23 برس کی چینی طالبہ، لِنگزی لُو؛ اور 29 برس کے ریستوران کے منیجر کرسٹل کیمپ بیل۔ میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے، 26 برس کے پولیس اہل کار، شین کولیئر کو تین روز بعد گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔
کولیئر کی بہن نے اس ہفتے بتایا کہ سماجی میڈیا یہ نہیں سمجھتا کہ زوخار سارنیف کو ٹانگ دیا جانا چاہیئے، جس کا تعلق چیچن نسل سے ہے، جس نے ایک رقعے میں کہا تھا کہ یہ حملہ امریکی فوج کی جانب سے مسلمان اکثریتی ملکوں میں کی جانے والی مداخلت کا بدلہ ہے۔
کولیئر کی بہن، جینفر لمرمن کے بقول، ’جب بھی کوئی سزائے موت کے خلاف بولتا ہے، تو میں یہ سوچ کر دہل جاتی ہوں کہ اگر میرے کسی پیارے کے ساتھ ایسا ہو، تو کیسا لگے گا۔ مجھے اس ڈراؤنے منظر سے سابقہ پڑا ہوا ہے‘۔
دیگر رائے زنی بھی کم اذیت ناک نہیں۔ اِن میں ’سی بی ایس‘ کے ایک مقامی میزبان، جون کیلر شامل ہیں، جو پہلے سزائے موت کے حق میں رائے رکھتے تھے۔ اس ماہ کے اوائل میں ایک بیان میں، کیلر نے کہا ہے کہ میری سوچ بدل گئی ہے۔ اور اس فیصلے کے بعد، مجھے اپنی سوچ میں مزید کسی تبدیلی کی توقع نہیں۔