سنہ 2013 میں بوسٹن میراتھون ریس پر ہونے والے مہلک بم حملوں میں بچ جانے والے ایک شہری نے عدالت کے سامنے شہادت دیتے ہوئے بتایا کہ حملے کے بعد کا منظر 'خون ریزی' کا سماں پیش کر رہا تھا۔
ریس کے شوقین، جیف بومن، جن کی دونوں ٹانگیں ریس کی فنش لائن کے قریب ہونے والے دھماکوں میں ضائع ہوئیں، بوسٹن کے کمرہ عدالت میں پیش ہوا اور زوخار سارنیف کے خلاف مقدمے کے دوسرے روز کی سماعت کے دوران اپنی شہادت ریکارڈ درج کرائی۔
اپنی مصنوعی ٹانگوں پر چل کر، بامن شاہدوں کے اسٹینڈ پر آئے، اور جیوری کو بتایا کہ دھماکوں سے کچھ ہی لمحات قبل، وہ بھیڑ میں بے خبری میں سارنیف کے بڑے بھائی، تمرلان سے ٹکرائے۔ حملوں میں تین افراد ہلاک ہوئے اور 264 زخمی ہوگئے۔
مدعا علیہ کے وکلا نے جمعرات کو بم حملوں کے بارے میں تصویری شہادتیں محدود کرنے کی درخواست دی۔ تاہم، جج جارج او تولے نے حکم دیا کہ حملوں کے بعد کیا بیتی، اس متعلق شہادتیں سنی جائیں گی۔
اس سے قبل، بدھ کو مقدمے کے آغاز پر چونکا دینے والی تصاویر دکھائے جانے کے بعد، بوسٹن کے وفاقی کمرہ عدالت میں جمعرات کے روز میراتھون ریس بم حملہ کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔
میراتھون دوڑ حملہ کیس کے ملزم، زوخار سارنیف کی وکیل، جوڈی کلارک نے بدھ کو عدالت کے سامنے اپنے ابتدائی بیان میں یہ بات تسلیم کی کہ 21 برس کا سارنیف 2013ء کے مہلک حملوں میں ملوث تھا۔
جوڈی کلارک کے بقول، 'ہاں، یہ وہی ہیں'۔
الزام ثابت ہونے کی صورت میں، ملزم کو موت کی سزا ہو سکتی ہے۔ اِن پر سالانہ عام دوڑ کی 'فنش لائن' پر دو دھماکے کرنے کا الزام ہے، جن کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور 264 زخمی ہوئے۔
تاہم، وکیل نے دعویٰ کیا کہ حملوں کے معاملے میں وہ شدید طور پر اپنے بڑے بھائی، تمرلان کے زیر اثر تھا، جس کا مقصد، استغاثے کے ایک رکن کے استدلال مطابق، مسلمان ملکوں پر امریکی جنگوں کا بدلہ لینا تھا۔
بڑے بھائی پر الزام دے کر وہ جیوری پر یہ ظاہر کرنا چاہتی ہیں کہ 21 برس کے زوخار سارنیف کو موت کی سزا نہیں دی جاسکتی۔