اگرچہ اس وقت دنیا کوویڈ 19 کے دور سے نکل آئی ہے لیکن لاکھوں لوگوں میں مرض سے صحتیابی کے کئی ہفتوں ، مہینوں بلکہ کئی سال کے بعد تک اس کی علامات دیکھنے میں آئی ہیں۔ مرض سے صحتیابی کے بعد اس کی علامات دوبارہ ظاہر ہونے یا مسلسل جاری رہنے کی صورت میں سائنسدان اسے “لونگ کوویڈ” کا نام دے رہے ہیں۔
لونگ کوویڈ کی تشخیص اور علاج کے ممکنہ طریقوں پر ریسرچ کےلئے امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے پیر کے روز ایک اعشاریہ 15 ارب ڈالرکے ایک ریکور ، یا بحالی کے پراجیکٹ کا علان کیا ہے ۔ اس پراجیکٹ کے تحت کون کون سے طریقوں پر ریسرچ ہو گی اور یہ عام ریسرچز سے کس طرح مختلف ہو گی ۔ اس کا ایک جائزہ اس رپورٹ میں پیش ہے۔
لونگ کوویڈ کیوں ہوتا ہے؟
سائنسدانوں کو ابھی تک لونگ کوویڈ کی وجوہات کا صحیح علم نہیں ہو سکا ہے جس کی لگ بھگ 200 مختلف علامات مشاہدے میں آچکی ہیں۔ ان میں ، جسم میں شدید درد، نیند میں خلل ،دماغ پر چھائی دھند ، دم گھٹنا، سینے میں درد ، سخت تھکاوٹ ، توجہ کا فقدان شامل ہیں ۔ اندازہ ہے کہ 10 سے 30 فیصد لوگ کورونا وائرس انفیکشن سے صحتیاب ہونے کے بعد لونگ کوویڈ کی کچھ علامات کا تجربہ کر چکے ہیں ۔
ڈاکٹروں اور محققین کاخیال ہے کہ اس کی بظاہر ایک وجہ تو یہ ہی ہوسکتی ہے کہ کوویڈ 19 وائرس جسم میں زیادہ دیر تک موجود رہ سکتا ہے۔ لیکن وہ کہتےہیں کہ ابھی تک یہ بات اس لئے وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کیونکہ لونگ کوویڈ کی اتنی بہت سی علامات ہیں اورمختلف لوگوں میں یہ مختلف انداز ،مختلف دورانیوں اور شدت کے مختلف درجوں کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ان علامات کی وجہ سے لاکھوں لوگ ابھی تک مختلف جسمانی ، ذہنی ، گھریلو، معاشرتی اور معاشی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں اور ابھی تک ان کےمرض کا کوئی مصدقہ علاج اس لیےدریافت نہیں ہو سکا ہے کہ اس کی تشخیص اور علاج پر کچھ زیادہ تجربات نہیں کیے جاسکے ۔
ریکور پراجیکٹ
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ، این آئی ایچ ، لونگ کوویڈ کی تشخیص اور علاج پر ریسرچ کا ایک نیا پراجیکٹ” ریکور پراجیکٹ” شرو ع کررہا ہے ۔ اس پراجیکٹ کے تحت ہونے والی ریسرچز چھوٹے پیمانے پر ہوں گی لیکن علاج کے کئی طریقوں پر تجربات کریں گی ۔
امریکی ہیلتھ اینڈ ہیومن سروسز کے وزیر زیوئیر بسیرا کا کہنا ہے کہ ہم نے اب تک بحالی کے اقدامات کے لیے ریسرچ میں 24 ہزا ر ایسے مریضوں کو شامل کیا ہے جن میں لونگ کووڈ کی مختلف علامات دیکھی گئی تھیں تاکہ ہم پہلے سب سے زیادہ عام اور پریشان کن علامات کا تعین کر سکیں۔ ان علامات کے تعین کے بعد اب ہم علاج کے حوالے سے مختلف تجربات شروع کر رہے ہیں ۔
علاج کےکن طریقوں پر ریسرچ ہو گی ؟
علاج کے پہلے دو طریقوں میں یہ جائزہ لیا جائے گا کہ آیا فائزر کی اینٹی وائرل ڈرگ، پیکسلووڈ، لونگ کوویڈ میں کمی لاسکتی ہے ۔
سب سے پہلے اس مفروضے کی بنیاد پر علاج کیا جائے گا کہ کچھ زندہ کورونا وائرس یا اس کی باقیات جسم میں چھپ سکتی ہیں اور بیماری کو دوبارہ پیدا کر سکتی ہیں ۔
اس تجرباتی علاج میں لونگ کوویڈ کے مریض کو 25 دن تک فائزر کی اینٹی وائرل ڈرگ ، پیکسلو وڈ، دی جائے گی ۔ عام طور پر پیکسلو وڈ اس وقت دی جاتی ہےجب لوگ پہلی بار کوویڈ 19 کا شکار ہوتے ہیں اور اسے صرف پانچ دن کےلیےدیاجاتا ہے۔
لونگ کوویڈ کی دوسری سب سے عام علامات میں ذہن پر چھائی دھند ، توجہ کا فقدان یا حافظے اورسوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کا متاثر ہونا شامل ہیں ۔ ایسی علامات کے علاج کے لیے کچھ ایسے تجرباتی پروگرام شروع کیے گئے ہیں جن سے مریضوں کے دماغ کے سرکٹس کو الیکٹریکل طریقے سے متحرک کیا جاتا ہے ۔
ان تجربات کے علاوہ آنے والے مہینوں میں نیند کی خرابی کے مسائل کے علاج پر ریسرچ ہوگی ۔ جب کہ ایک اور ریسرچ خود اختیار اعصابی سسٹم کے مسائل پر مرکوز ہوگی جو سانس اور دل کی دھڑکن جیسے غیر ارادی افعال کو کنٹرول کرتا ہے۔
ایک اورمتنازع ریسرچ ورزش کی برداشت کے فقدان اور تھکاوٹ پر بھی تجویز کی گئی ہے ۔ این آئی ایچ کچھ ایسے مریضوں کے گروپس سے بات کرے گا جن کا خیال ہے کہ ورزش، لونگ کووڈ، میں مبتلا افر اد کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے ۔
ریکوری پراجیکٹ کے تجربات غیر روایتی ہوں گے
ان تجربات میں اس وقت 300 سے 900 لوگوں کو شامل کیا جارہا ہے لیکن اس تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ یہ تجربات روائتی تجربات سے مختلف ہوں گےجن میں ایک وقت میں ایک علاج کو ٹیسٹ کیاجاتا ہے ۔ ان میں علاج کے دوسرےممکنہ طریقوں کو بھی منظم انداز میں پرکھا جا ئے گا۔
این آئی ایچ کی ڈاکٹر ایمی پیٹرسن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر تجربے کے دوران کوئی علاج کارگر ثابت نہ ہوا تو صرف اس مخصوص علاج پر کام ختم کردیا جائے گا لیکن تجربہ جاری رہے گا ۔ اگر اس تجربے کےدوران کوئی کار آمد بات سامنے آتی ہے تو ہم اسے تجربے میں شامل کر سکتے ہیں ۔
ہارورڈ کے ایک محقق، ڈاکٹر اینتھنی کوماروف ، جو این آئی ایچ کے پروگرام میں شامل نہیں ہیں کہتے ہیں کہ ان ریسرچز میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان میں لچک موجود ہے ۔ مثال کے طور پر اگر پیکسلووڈ ریسرچ درست سمت میں جا رہی ہے مگر 25 دن کا علاج کار گرنہیں ہو رہا تو بجائےاس کے کہ ریسرچ کو نئے سرے سےشروع کیا جائے اس علاج کی مدت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
اس رپورٹ کا مواد اےپی سےلیا گیا ہے)