عالمی کپ سے قبل برازیل میں جہاں ایک طرف مقامی لوگوں کا ذوق و شوق دیدنی ہے وہیں بہت سے لوگ اس میگا ایونٹ کے انتظامات کے لیے خرچ کی جانے والی خطیر رقم پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنا رہےہیں۔
دنیائے کھیل کا سب سے بڑا ایونٹ فٹبال ورلڈ کپ 2014ء دو روز بعد برازیل میں شروع ہو رہا ہے جسے دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے ایک اندازے کے مطابق آٹھ لاکھ سے زائد شائقین برازیل آئیں گے۔
32 ممالک کی ٹیمیں ایک ماہ تک جاری رہنے والے ایونٹ میں برازیل کے 12 شہروں میں 64 میچز کھیلے جائیں گے۔
ٹیموں کو آٹھ گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے اور ورلڈ کپ کا افتتاحی میچ میزبان برازیل اور کروشیا کے درمیان ساؤ پاؤلو میں کھیلا جائے گا۔
عالمی کپ سے قبل برازیل میں جہاں ایک طرف مقامی لوگوں کا ذوق و شوق دیدنی ہے وہیں بہت سے لوگ اس میگا ایونٹ کے انتظامات کے لیے خرچ کی جانے والی خطیر رقم پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنا رہےہیں۔
فٹبال ورلڈ کپ کے لیے برازیل نے اسٹیڈیمز اور دیگر بنیادی ڈھانچے کے لیے 11 ارب ڈالرز مختص کیے ہیں جس پر ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں عوامی خدمات کے محکموں کی ناقص کارکردگی کی شکایات عام ہیں، کم اجرت اور مہنگی رہائش کے باعث لوگ پریشان ہیں، وہاں اتنی بڑی رقم کھیلوں کے مقابلوں پر صرف کرنا درست بات نہیں۔
تاہم حکومت اور بعض دیگر حلقوں کا کہنا ہے کہ ورلڈ کپ کی بدولت دنیا بھر سے آنے والے شائقین سے نہ صرف ملک کو آمدن حاصل ہو گی بلکہ ملک کی ثقافت کو اجاگر کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
غیر ملکی سیاحوں کو بھی اس ساری صورتحال کا ادراک ہے۔
ڈنمارک سے یہاں اپنا ہنی مون منانے کے لیے آنے والے نوبیاہتا جوڑے لاسی اور این کیتھرین کا کہنا تھا کہ انھیں معلوم ہے کہ لوگوں میں ورلڈ کپ کے اخراجات کو لے کر غصہ پایا جاتا ہے۔
این نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ "میں بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہوں لیکن (ورلڈ کپ) کی وجہ سے ملک میں بہت سے سیاح بھی آتے ہیں اور اس سے بہت سی رقم حاصل ہوتی ہے، مجھے معلوم ہے کہ انھوں (برازیل) نے بہت خرچ کیا ہے کہ انھیں بہت کچھ ملے گا بھی۔"
احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ ورلڈ کپ کے موقع کو تبدیلی کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں، بعض کا کہنا ہے کہ وہ ملک کا مثبت رخ اور یہاں کی ثقافت کو پیش کرنا چاہتے ہیں اور یہیں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد فٹبال ورلڈ کپ سے پوری طرح لطف اندوز ہونا چاہتی ہے۔
32 ممالک کی ٹیمیں ایک ماہ تک جاری رہنے والے ایونٹ میں برازیل کے 12 شہروں میں 64 میچز کھیلے جائیں گے۔
ٹیموں کو آٹھ گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے اور ورلڈ کپ کا افتتاحی میچ میزبان برازیل اور کروشیا کے درمیان ساؤ پاؤلو میں کھیلا جائے گا۔
عالمی کپ سے قبل برازیل میں جہاں ایک طرف مقامی لوگوں کا ذوق و شوق دیدنی ہے وہیں بہت سے لوگ اس میگا ایونٹ کے انتظامات کے لیے خرچ کی جانے والی خطیر رقم پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنا رہےہیں۔
فٹبال ورلڈ کپ کے لیے برازیل نے اسٹیڈیمز اور دیگر بنیادی ڈھانچے کے لیے 11 ارب ڈالرز مختص کیے ہیں جس پر ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں عوامی خدمات کے محکموں کی ناقص کارکردگی کی شکایات عام ہیں، کم اجرت اور مہنگی رہائش کے باعث لوگ پریشان ہیں، وہاں اتنی بڑی رقم کھیلوں کے مقابلوں پر صرف کرنا درست بات نہیں۔
تاہم حکومت اور بعض دیگر حلقوں کا کہنا ہے کہ ورلڈ کپ کی بدولت دنیا بھر سے آنے والے شائقین سے نہ صرف ملک کو آمدن حاصل ہو گی بلکہ ملک کی ثقافت کو اجاگر کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
غیر ملکی سیاحوں کو بھی اس ساری صورتحال کا ادراک ہے۔
ڈنمارک سے یہاں اپنا ہنی مون منانے کے لیے آنے والے نوبیاہتا جوڑے لاسی اور این کیتھرین کا کہنا تھا کہ انھیں معلوم ہے کہ لوگوں میں ورلڈ کپ کے اخراجات کو لے کر غصہ پایا جاتا ہے۔
این نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ "میں بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہوں لیکن (ورلڈ کپ) کی وجہ سے ملک میں بہت سے سیاح بھی آتے ہیں اور اس سے بہت سی رقم حاصل ہوتی ہے، مجھے معلوم ہے کہ انھوں (برازیل) نے بہت خرچ کیا ہے کہ انھیں بہت کچھ ملے گا بھی۔"
احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ ورلڈ کپ کے موقع کو تبدیلی کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں، بعض کا کہنا ہے کہ وہ ملک کا مثبت رخ اور یہاں کی ثقافت کو پیش کرنا چاہتے ہیں اور یہیں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد فٹبال ورلڈ کپ سے پوری طرح لطف اندوز ہونا چاہتی ہے۔