'برکس گروپ کا امریکی ڈالر کو چیلنج کرنا افسانوی بات لگتی ہے'

BRICS summit held in Russia's city of Kazan

  • ماہر اقتصادیات جم او نیل نے کہا کہ جی سیون گروپ کی طرح برکس کے ایک حقیقی اقتصادی کلب ہونے کا خیال "پریوں کی سی بات لگتی ہے۔"
  • برکس فورم کا اجلاس بنیادی طور پر ایک علامتی اجتماع ہے.
  • چین اور بھارت میں تقسیم بدستور برقرار ہے اور وہ تجارت کے معاملے پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں۔
  • اگر یہ ممالک اقتصادی معاملات کے بارے میں "واقعی سنجیدہ ہونا چاہتے ہیں تو وہ آپس کی تجارت میں ڈیوٹی کم کیوں نہیں کرتے.
  • پوٹن برکس کے اجلاس کو یہ ظاہر کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں کہ مغرب کی ماسکو کو یوکرین جنگ کے معاملے پر دنیا میں تنہا کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں

’دنیا کے کئی اہم ملکوں پر مشتمل گروپ برکس کا امریکی ڈالر کو چیلنج کرنا ایک افسانوی سی بات لگتی ہے کیونکہ چین اور بھارت میں تقسیم بدستور برقرار ہے اور وہ تجارت کے معاملے پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں۔‘

یہ بات اس گروپ کے نام کا مخفف "برکس" رکھنے والے ماہر اقتصادیات جم او نیل نے ایک انٹرویو میں کہی۔

روس کے صدر ولادیمر پوٹن برکس کے اجلاس کو یہ ظاہر کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں کہ ماسکو کو یوکرین جنگ کے معاملے پر دنیا میں تنہا کرنے کی مغرب کی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں اور یہ کہ روس ایشیا کی ابھرتی ہوئی طاقتوں کے ساتھ تعلقات استوار کررہا ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں گولڈ مین سیکس کمپنی کے سابق چیف ماہر اقتصادیات جم او نیل نے کہا کہ برکس کا جی سیون گروپ کی طرح کا ایک حقیقی اقتصادی کلب ہونے کا خیال "پریوں کی سی بات لگتی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ یہ امر "تشویش ناک" ہے کہ گروپ کے ممبر اس گروپ کو کسی عالمی متبادل کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ ظاہر ہے کہ یہ "قابل عمل" دکھائی نہیں دیتا۔

SEE ALSO: کیاپوٹن برکس سر براہی اجلاس سے عالمی امور پر مغربی اثر و رسوخ کا مقابلہ کر پائیں گے؟

جم او نیل نے سال 2001 میں ایک تحقیق میں ’برکس‘کی اصطلاح ایجاد کی تھی جب انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ برازیل، روس، بھارت اور چین کا ترقی کا بہت بڑا پوٹینشل ہے اور عالمی نظام میں اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ ان ملکوں کو اس نظام میں شامل کیا جائے۔

انہوں نے کہا، برکس فورم کا اجلاس بنیادی طور پر ایک علامتی اجتماع ہے جہاں روس جیسے شورمچانے والے ملک اور چین مل جل کر بیٹھتے ہیں اور اس بات کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ "کسی ایسی چیز کا حصہ بننا جس میں امریکہ شامل نہ ہو کتنا اچھا لگتا ہے اور یہ کہ عالمی عمل داری کی موجودہ صورتحال اتنی اچھی نہیں ہے۔"

او نیل نے کہا کہ وہ اپنے ماتھے پر "مسٹر برکس" کا ٹھپہ لگانے کو تیار ہیں لیکن اس گروپ نے گزشتہ 15 سالوں میں کچھ خاص حاصل نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح مغرب چین اور بھارت کے بغیر، اور کسی حد تک روس اور برازیل کے بغیر، عالمی مسائل کا حل نہیں ڈھونڈ سکتا اسی طرح امریکہ اور یورپ کے بغیر عالمی مسائل کو حل کرنا ممکن نہیں ہے۔

SEE ALSO: پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس سے کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟

برکس کا قیام روس، بھارت اور چین کے درمیان ملاقاتوں کے بعد عمل میں آیا۔ بعد ازاں اس گروپ میں برازیل، جنوبی افریقہ، مصر، اتھیوپیا، ایران اور عرب امارات کو بھی شامل کرلیا گیا۔ سعودی عرب ابھی اس گروپ باقاعدہ رکن نہیں بنا۔

اس وقت یہ گروپ دنیا کی آبادی کا 45 فیصد اور عالمی معیشت کا 35 فیصد ہے۔ چین اس گروپ کی طاقت کا نصف حصہ ہے۔

پوٹن نے گروپ کے تازہ ترین اجلاس کا بدھ کو افتتاح کیا۔ اس موقع پر پوٹن نے کہا کہ دنیا کے تیس ملکوں نے برکس میں شمولیت میں دلچسبی کا اظہار کیا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ گروپ کو وسعت دیتے وقت توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

او نیل کا کہنا ہے کہ گروپ میں زیادہ ارکان کی شرکت سے مقاصد کا حصول مزید مشکل ہو جائے گا۔

ڈالر کا چیلنج

روس کی کوشش ہے کہ برکس کے ارکان کو اس پر مائل کیا جائے کہ بین الاقوامی لین دین کا ایک ایسا متبادل نظام بنایا جائے جو مغربی پابندیوں کے زیر اثر نہ ہو۔

سڑسٹھ سالہ اونیل کہتے ہیں کہ ڈالر کو عالمی کرنسی کے طور پر تبدیل کرنے کی باتیں بہت عرصے سے ہورہی ہیں لیکن ڈالر کو چیلنج کرنے کی اہلیت رکھنے والے ملکوں میں سے کسی نے بھی آج تک کو ئی "سنجیدہ کوشش" نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ برکس کی طرف سے بنائی گئی کسی بھی متبادل کرنسی کا بہت بڑا دارومدار چین پر ہوگا جبکہ روس اور برازیل اس کا اہم حصہ نہیں ہوں گے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر یہ ممالک اقتصادی معاملات کے بارے میں "واقعی سنجیدہ ہونا چاہتے ہیں تو وہ آپس کی تجارت میں محصولات کم کیوں نہیں کرتے۔"

SEE ALSO: برکس سربراہی اجلاس: گروپ کی توسیع اور مقامی کرنسی میں تجارت پر اختلافات

او نیل کے بقول وہ برکس کو اس وقت سنجیدگی سے لیں گے جب وہ ایسے اشارے دیکھیں کہ سب سے اہم ملک چین اور بھارت مسائل پر اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش کریں نہ کہ ہر وقت ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے رہیں۔

واضح رہے کہ بھارت نے چین کے ساتھ ایک دہائی پرانے سرحدی تنازعے اور 2020 میں سرحدی فورسز کے درمیان لڑائی کے تناظر میں اپنے ملک میں چینی سرمایہ کاری کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔

ادھر چین کے صدر نے پوٹن کو بتایا کہ اس وقت عالمی حالات ابتری کے شکنجے میں ہیں لیکن بیجنگ اور ماسکو کی شراکت داری ایک صدی میں ہونے والی سب سے بڑی تبدیلیوں کے پیش نظر استحکام کو تقویت دی سکتی ہے۔

او نیل کے مطابق برکس کے مقاصد ابہام کا شکار ہیں اور اسے آب و ہوا میں تبدیلی اور متعدی بیماریوں کے لیے ویکسین کی تلاش جیسے دنیا کو درپیش بڑے عالمی امور سے نمٹنا چاہیے۔

(اس خبر میں شامل مواد "رائٹرز " سے لیا گیا ہے)