رسائی کے لنکس

طالبان روس میں برکس سربراہی اجلاس میں باضابطہ شرکت کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟


 طالبان کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرت 25 ستمبر 2024 کو روس کی میزبانی میں ہونے والے برکس سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے اپنی رضامندی پر سرکاری نشریاتی ادارے آر ٹی اے سے بات کر رہے ہیں (کرٹسی ریڈیو ٹیلی ویژن افغانستان)
طالبان کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرت 25 ستمبر 2024 کو روس کی میزبانی میں ہونے والے برکس سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے اپنی رضامندی پر سرکاری نشریاتی ادارے آر ٹی اے سے بات کر رہے ہیں (کرٹسی ریڈیو ٹیلی ویژن افغانستان)
  • ’برکس‘ کے 10 رہنما 22 سے24 اکتوبر تک روسی شہر کازان میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔
  • ایک ترقی پذیر معیشت کے طور پر افغانستان کو ایسے اقتصادی اجتماعات میں شرکت کرنے کی ضرورت ہے۔"طالبان کے نائب ترجمان
  • " امارت اسلامیہ آنے والے برکس فورم میں موجودگی کی خواہاں ہے، اور اس درخواست کو باضابطہ طور پر میزبان ملک تک پہنچا دیا گیا ہے۔" فطرت
  • طالبان کے اس دعویٰ پر روس کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔


افغانستان کے حکمراں طالبان نے بدھ کو تصدیق کی ہے کہ انہوں نے ابھرتی ہوئی بڑی معیشتوں کے گروپ ’برکس‘کے روس کی میزبانی میں ہونے والے آئندہ اجلاس میں باضابطہ طور پر شامل ہونے کی کوشش کی ہے۔

’برکس‘ جس کا نام برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ کے ناموں کا مخفف ہے، اسکے 10 رہنما 22 سے24 اکتوبر تک روسی شہر کازان میں اسکے اجلاس میں شرکت کریں گے۔

مصر، ایتھوپیا، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس سال اقتصادی بلاک میں شمولیت اختیار کی ہے۔

طالبان روس سے اجلاس میں شرکت کی دعوت کیوں چاہتے ہیں؟

طالبان کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرت نے افغانستان کے سرکاری نشریاتی ادارے سے نشر ہونے والے ایک ویڈیو پیغام میں کہا،"برکس ایک اہم اقتصادی فورم ہے، اور ایک ترقی پذیر معیشت کے طور پر افغانستان کو ایسے اقتصادی اجتماعات میں شرکت کرنے کی ضرورت ہے۔"

" امارت اسلامیہ آنے والے برکس فورم میں موجودگی کی خواہاں ہے، اور اس درخواست کو باضابطہ طور پر میزبان ملک تک پہنچا دیا گیا ہے۔" فطرت نے یہ بات کابل میں اپنی حکومت کے سرکاری نام کا استعمال کرتے ہوئے کہی جسے کسی بھی ملک نے سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ انہوں نے مزید تفصیلات شیئر نہیں کیں۔

طالبان کے اس دعوے پر روس کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

تین سال قبل جب امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک نے اس وقت کے باغی طالبان کے ساتھ تقریباً دو دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد اپنی فوجیں واپس بلائی تھیں، تب سے ماسکو نے ڈی فیکٹو افغان رہنماؤں کے ساتھ قریبی غیر رسمی تعلقات استوار کیے ہیں۔

تاہم جہاں تک طالبان کو تسلیم کرنے کا معاملہ ہے، روس نے بھی عالمی اتفاق رائے کے مطابق طالبان کو ایک جائز حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ تاہم حالیہ مہینوں میں دو طرفہ اقتصادی اور تجارتی بات چیت کے لیے طالبان کے وفود نے بارہا ماسکو کا دورہ کیا ہے۔

روس کی وزارت خارجہ اور انصاف نے جون میں صدر ولادیمیر پوٹن کو ایک تجویز پیش کی تھی کہ وہ اساس پسند افغان گروپ کو روس کی نامزد دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیں۔ اس اقدام نے ان قیاس آرائیوں کو جنم دیا تھا کہ ماسکو باضابطہ طور پر کابل حکام کو تسلیم کرنے کے قریب آ گیا ہے۔

طالبان 2003 سے القاعدہ سمیت، روس کی بین الاقوامی عسکریت پسند گروپوں کی فہرست میں شامل ہیں۔

ڈی فیکٹو افغان رہنماؤں نے جنوبی ایشیا کے اس غریب ملک میں اسلامی قانون کی، جسے شریعت کہا جاتا ہے،خود اپنی سخت تشریح کا نفاذ کیا ہے۔ افغان لڑکیوں کے چھٹی جماعت سے آگے اسکولوں میں جانے پر پابندی لگا دی ہے، طالبات کو یونیورسٹیوں سے معطل کر دیا ہے، خواتین کو زیادہ تر کام کی جگہوں سے روک دیا ہے، اور موسیقی پر پابندی لگا دی ہے۔

طالبان نے زنا جیسے جرائم کی پاداش میں سرعام سنگسار کرنے اور پھانسی دینے جیسی سزائیں بھی متعارف کروائیں۔

اقوام متحدہ اور دیگر ملک

اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری نے طالبان حکومت کو سفارتی جواز فراہم کرنے پر غور کرنے سے پہلے خواتین پر عائد پابندیوں کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ہفتے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر کہاکہ خواتین کے ساتھ طالبان کے سلوک کا موازنہ "حالیہ تاریخ میں جبر کے بدترین نظاموں میں سے کچھ" سے کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا، "ہم افغان خواتین کی آواز کو بلند کرنا جاری رکھیں گے اور ان سے ملک کی زندگی میں، ملکی سرحدوں کے اندر اور عالمی سطح پر بھرپور کردار ادا کرنے کا مطالبہ کریں گے۔"

اقوام متحدہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے گزشتہ ماہ اخلاقیات کے قانون کے نفاذ نے کابل کے حکمرانوں کو تسلیم کرنا مزید مشکل بنا دیا ہے۔

طالبان رہنما اپنے طرز حکمرانی پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہتےہیں کہ یہ مقامی ثقافت اور شریعت سے ہم آہنگ ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کےامدادی مشن کی سربراہ روزا اوتن بائیفا نے گزشتہ ہفتے سلامتی کونسل کے اجلاس کو بتایا تھا کہ"اس کا مطلب یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری میں افغانستان کے مکمل انضمام کی راہ میں موجود ایک بڑی رکاوٹ ضروری بات چیت کا حصہ نہیں بن سکتی۔"

طالبان کی طرف سے جاری کی گئی اس تصویر میں، افغانستان میں چین کے نئے سفیر ژاؤ شینگ، کابل، افغانستان میں طالبان کے وزیر اعظم محمد حسن آخوند کے ساتھ۔ 13 ستمبر، 2023. چین ان دو ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے باضابطہ طور پر طالبان کے سفیر کو قبول کیا ہے۔(طالبان وزارت اطلاعات)
طالبان کی طرف سے جاری کی گئی اس تصویر میں، افغانستان میں چین کے نئے سفیر ژاؤ شینگ، کابل، افغانستان میں طالبان کے وزیر اعظم محمد حسن آخوند کے ساتھ۔ 13 ستمبر، 2023. چین ان دو ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے باضابطہ طور پر طالبان کے سفیر کو قبول کیا ہے۔(طالبان وزارت اطلاعات)

چین اور طالبان

چین نے کابل کے ساتھ اپنے سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو بھی بڑھایا ہے چینی کمپنیوں نے افغانستان میں کئی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں اور وہ متحدہ عرب امارات سمیت ان دو ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے طالبان کے مقرر کردہ سفیر کو باضابطہ طور پر قبول کیا ہے۔

پیر کے روز چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لن جیان نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ بیجنگ توقع کرتا ہے کہ طالبان عالمی برادری کے "جائز تحفظات کو دیکھیں"۔

لن نے کہا، " خواتین کے حقوق اور مفادات افغان مسئلے کا مکمل حصہ نہیں ہیں، اور نہ ہی اس مسئلے کی بنیادی وجہ ہیں"۔ انہوں نے اقوام متحدہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں تقریباً 2 کروڑ چالیس لاکھ افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے، جن میں سے نصف سے زیادہ شدید غذائی عدم تحفظ سے دو چار ہیں۔

"عالمی برادری کو افغانستان کو درپیش سب سے اہم مشکلات پر توجہ مرکوز کرنے اور افغانستان میں تعمیر نو اور ترقی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے... اور اسکےساتھ ہی، مساوات اور احترام کے جذبے کے ساتھ، افغانستان کے حکمرانوں کو خواتین اور بچوں کے حقوق کا تحفظ بہتر اور مضبوط بنانے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔ " لن نے کہا۔

فورم

XS
SM
MD
LG