اولاد سمجھتی ہے کہ وراثت میں ملنے والا ترکہ ان کے معاشی مسائل کا حل ثابت ہو سکتا ہے. لیکن، بد قسمتی سے تقریباً نصف والدین جن کی عمریں 50 برس یا اس سے زیادہ ہے وہ اپنی بچت کا بڑا حصہ معاشی نامساعد حالات کی نظر کر چکے ہیں
برطانوی شہریوں کی ایک بڑی تعداد توقع رکھتی ہے کہ والدین سے وراثت میں انھیں ایک بڑی رقم حاصل ہو گی۔ لیکن، ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ، لوگوں کی تقریباً نصف تعداد وراثت میں کچھ بھی پانے سے محروم رہ سکتی ہے۔
برطانیہ کے ایک مالی ادارے 'اسکیپٹن بلڈنگ سوسائٹی' کی جانب سے 2000 بالغان پر مشتمل ایک تحقیق ہوئی جس کے نتیجے سے اخذ کیا گیا ہے کہ 75ہزار برطانوی جن کی عمریں 20 برس سے 35 برس کے درمیان ہے، سمجھتے ہیں کہ والدین کےدنیا سے جانے کے بعد انھیں ترکہ میں ایک غیرمتوقع بڑی دولت حاصل ہو سکتی ہے۔
رپورٹ میں اخذ کیا گیا ہے کہ ایک عام آدمی خیال کرتا ہے کہ والدین کے گزرنے کے بعد وراثت میں ملنے والے ترکہ کی مالیت اندازا 78 ہزار پاؤنڈ ہو سکتی ہے جبکہ تحقیق کہتی ہے کہ 10 میں سے 4 بچوں کو والدین سےترکہ میں کچھ نہیں مل سکے گا۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 50 فیصد اولاد سمجھتی ہے کہ وراثت میں ملنے والا ترکہ ان کے معاشی مسائل کا حل ثابت ہو سکتا ہے اسی لیے وہ پنی معاشی منصوبہ بندی کو طاق پر سجا رکھتے ہیں لیکن بد قسمتی سے تقریبا نصف والدین جن کی عمریں پچاس برس یا اس سے زیادہ ہے وہ اپنی بچت کا بڑا حصہ معاشی نامساعد حالات کی نظر کر چکے ہیں۔
’اسکیپٹن بلڈنگ سوسائٹی‘ کی مواصلات کی مینیجر اسٹیسی اسٹوتھرڈ نے کہا کہ تقریباً 68 فیصد بچے توقع رکھتے ہیں کہ انھیں والدین کا گھر وراثت میں ملے گا ،32 فیصد کا خیال ہے کہ انھیں کار مل سکتی ہے اسی طرح67 فیصد بچے یکمشت نقد رقم کی امید رکھتے ہیں جبکہ 54 فیصد بچے اپنے ریٹائرمنٹ کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کر رہے ہیں۔
اسی طرح 5 فیصد بچے حقیقت میں وراثت میں ملنے والے ترکہ کو اپنی مالی مشکلات سے نکلنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں جس سے وہ اپنے قرضے اتا ر سکیں گے۔
پانچ فیصد بچوں کو توقع ہے کہ اس رقم سے وہ اپنے لیےایک گھر خرید سکیں گے، جبکہ 25 فیصد کا اندازہ ہے کہ وراثت میں ملنے والی رقم گھر اور گاڑی کا قرضہ ادا کرنے میں ان کے کام آ سکے گی۔
پانچ فیصد بچوں کو توقع ہے کہ اس رقم سے وہ اپنے لیےایک گھر خرید سکیں گے، جبکہ 25 فیصد کا اندازہ ہے کہ وراثت میں ملنے والی رقم گھر اور گاڑی کا قرضہ ادا کرنے میں ان کے کام آ سکے گی۔
15 فیصد والدین کی بچت کا مقصد اپنے بچوں کو یونیورسٹی کی تعلیم دلانا ہوتا ہے۔ لیکن اکثروالدین چاہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی اچھی زندگی گزارنے کے لیے بہت بڑی رقم چھوڑ جائیں وہیں وہیں اکثریت نے اپنی بچت کو زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کے لیے چنا ہے ۔
10میں سے 4 والدین پہلے سے ہی اپنے بچوں کی یونیورسٹیوں کی فیس، ڈرائیونگ سیکھنے کی فیس جیسے موٹےموٹے خرچے پورے کر رہے ہیں۔
10 میں سے 7 والدین اپنی بچت بہتر طور پر خرچ کر رہے ہیں خاص کر جب خاندان کو اس کی ضرورت ہو۔
57 فیصد والدین جانتے ہیں کہ ان کے بچوں کو وراثت میں بڑی رقم ملنے کی آس ہے۔
جبکہ 95 فیصد والدین کا خیال ہے کہ بچوں کو اپنے مستقبل کے حوالے سے خود زیادہ زمہ دار بننا چاہیے۔
اسٹیسی کہتی ہیں کہ موجودہ اقتصادی حالات کے باوجود یہ حقیقت میں ایک اعلی خطرے کی حکمت عملی ہو گی کہ اپنی مالی امیدوں کو پورا کرنے کے لیےوالدین کی مال و دولت کے اندازے پرنظر رکھی جائے اور یہ اخز کر لیا جائے کہ، ترکہ میں انھیں ایک بڑی رقم حاصل ہو گی۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ جب ان کے لیے مالی طور پر مشکل وقت ہوتا ہے اس وقت ان کے والدین بھی معاشی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں ایسے میں والدین اپنے بچوں کی پریشانیوں میں ان کی مدد کرنے کی غرض سے بچت کے حصوں میں سے رقم نکالتے ہیں اور وہ اپنے بچوں کی جدوجہد میں ان کے ساتھ اشتراک کر رہے ہیں۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ جب ان کے لیے مالی طور پر مشکل وقت ہوتا ہے اس وقت ان کے والدین بھی معاشی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں ایسے میں والدین اپنے بچوں کی پریشانیوں میں ان کی مدد کرنے کی غرض سے بچت کے حصوں میں سے رقم نکالتے ہیں اور وہ اپنے بچوں کی جدوجہد میں ان کے ساتھ اشتراک کر رہے ہیں۔
اسٹیسی کا کہنا تھا کہ 'چاہے آپ کے معاشی حالات کسی بھی نوعیت کے ہوں خود انحصاری پر بھروسہ کیا جائے بہتر یہ ہے کہ باقاعدگی سے اپنے معاشی معاملات کا جائزہ لیا جائےکہیں اور سے ملنے والے مالی استفادے پر انحصار کرنا موجودہ مالی فضا میں سراسر ایک جوا ثابت ہو سکتا ہے ۔'