اگر پاکستان میں عام انتخابات نہیں ہوئے تو یہ پاکستان کے برطانیہ سمیت عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کے لیے انتہائی نقصان دہ بات ہو گی۔
لندن —
پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر ایڈم تھامسن نے کہا ہے کہ وہ پاکستانی عوام کے آئندہ عام انتخابات کے ملتوی ہونے کے یا ان کے تاخیر کے خدشات سے پوری طرح آگاہ ہیں لیکن انتخابات کا التوا برطانیہ سمیت عالمی برادری سے پاکستان کے تعلقات کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔
لندن میں برطانوی وزارت خارجہ میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے برطانوی ہائی کمشنر نے کہا کہ اگر پاکستان میں عام انتخابات نا ہوئے ’’تو یہ پاکستان کے برطانیہ سمیت عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کے لیے انتہائی نقصان دہ بات ہو گی۔‘‘
ایڈم تھامسن کے مطابق پاکستانی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور الیکشن کمیشن سمیت کئی اہم اداروں کے حکام کی ان سے ہونے والی ملاقاتوں کی روشنی میں برطانیہ اس بات پر قائل ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے انتخابات کے بروقت اور شفاف انعقاد میں مخلص ہیں۔ خصوصاً ایسا آزاد الیکشن کمیشن جو کہ ان کے الفاظ میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اتفاق رائے سے تشکیل دیا گیا۔
برطانوی ہائی کمشنر کے مطابق پاکستان میں پہلی بار ایک منتخب جمہوری حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے والی ہے جو کہ جمہوریت اور پاکستانی آئین کے بقا کے لیے لازمی ہے۔
وائس آف امریکہ کے اس سوال پر کہ پاکستان میں یہ خدشات بھی پائے جاتے ہیں کہ شاید مغربی ممالک 2014ء میں افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف جنگ میں شاید ایک مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔
’’پاکستان کو اکیلے نہیں چھوڑا جائے گا اور ایسا نہیں ہو گا کہ ہم ان کو چھوڑ کر چلے جائیں گے اس وقت خطے میں برطانیہ کی توجہ افغانستان میں قیام امن کے لیے شروع کیے گئے اس سیاسی عمل کی کامیابی پر مرکوز ہے کیونکہ افغانستان میں قیام امن پاکستان اور پاکستان میں برطانوی مفادات کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے۔‘‘
برطانوی ہائی کمشنر کے ان خیالات پر ای میل کے ذریعے تبصرہ کرتے ہوئے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں یہ خدشات پائے جاتے ہیں کہ 2014ء کے بعد پاکستان کو دہشت گردی اور طالبان کے خلاف جنگ میں اسی طرح اکیلے چھوڑ دیا جائے گا جس طرح روس کو شکست دینے کے بعد مغربی ممالک چلے گئے تھے۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے صدر آصف علی زرداری سے ہونے والی حالیہ ملاقات میں پاکستان کو یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ مغربی ممالک 2014ء کے بعد بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان سے ماضی کی طرح قریبی تعاون جاری رکھیں گے۔
کیا افغانستان کی طرح پاکستان میں بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے امن کی کوششیں مغربی ممالک کے لیے قابل قبول ہوں گی۔
اس بارے میں ایڈم تھامسن کا کہنا تھا کہ ’’اگر ہم افغانستان میں سیاسی عمل کے ذریعے مسائل کے حل پر زور دے رہے ہیں تو سرحد کے دوسری طرف پاکستان میں بھی مسائل کے حل کے لیے اس پالیسی کا اطلاق ہونا چاہیئے لیکن پاکستانی طالبان قیام امن میں کتنے سنجیدہ ہیں کسی بھی فیصلے سے قبل پاکستانی حکام کے لیے یہ جانچنا ضروری ہے۔‘‘
لندن میں برطانوی وزارت خارجہ میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے برطانوی ہائی کمشنر نے کہا کہ اگر پاکستان میں عام انتخابات نا ہوئے ’’تو یہ پاکستان کے برطانیہ سمیت عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کے لیے انتہائی نقصان دہ بات ہو گی۔‘‘
ایڈم تھامسن کے مطابق پاکستانی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور الیکشن کمیشن سمیت کئی اہم اداروں کے حکام کی ان سے ہونے والی ملاقاتوں کی روشنی میں برطانیہ اس بات پر قائل ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے انتخابات کے بروقت اور شفاف انعقاد میں مخلص ہیں۔ خصوصاً ایسا آزاد الیکشن کمیشن جو کہ ان کے الفاظ میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اتفاق رائے سے تشکیل دیا گیا۔
برطانوی ہائی کمشنر کے مطابق پاکستان میں پہلی بار ایک منتخب جمہوری حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے والی ہے جو کہ جمہوریت اور پاکستانی آئین کے بقا کے لیے لازمی ہے۔
وائس آف امریکہ کے اس سوال پر کہ پاکستان میں یہ خدشات بھی پائے جاتے ہیں کہ شاید مغربی ممالک 2014ء میں افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف جنگ میں شاید ایک مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔
’’پاکستان کو اکیلے نہیں چھوڑا جائے گا اور ایسا نہیں ہو گا کہ ہم ان کو چھوڑ کر چلے جائیں گے اس وقت خطے میں برطانیہ کی توجہ افغانستان میں قیام امن کے لیے شروع کیے گئے اس سیاسی عمل کی کامیابی پر مرکوز ہے کیونکہ افغانستان میں قیام امن پاکستان اور پاکستان میں برطانوی مفادات کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے۔‘‘
برطانوی ہائی کمشنر کے ان خیالات پر ای میل کے ذریعے تبصرہ کرتے ہوئے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں یہ خدشات پائے جاتے ہیں کہ 2014ء کے بعد پاکستان کو دہشت گردی اور طالبان کے خلاف جنگ میں اسی طرح اکیلے چھوڑ دیا جائے گا جس طرح روس کو شکست دینے کے بعد مغربی ممالک چلے گئے تھے۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے صدر آصف علی زرداری سے ہونے والی حالیہ ملاقات میں پاکستان کو یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ مغربی ممالک 2014ء کے بعد بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان سے ماضی کی طرح قریبی تعاون جاری رکھیں گے۔
کیا افغانستان کی طرح پاکستان میں بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے امن کی کوششیں مغربی ممالک کے لیے قابل قبول ہوں گی۔
اس بارے میں ایڈم تھامسن کا کہنا تھا کہ ’’اگر ہم افغانستان میں سیاسی عمل کے ذریعے مسائل کے حل پر زور دے رہے ہیں تو سرحد کے دوسری طرف پاکستان میں بھی مسائل کے حل کے لیے اس پالیسی کا اطلاق ہونا چاہیئے لیکن پاکستانی طالبان قیام امن میں کتنے سنجیدہ ہیں کسی بھی فیصلے سے قبل پاکستانی حکام کے لیے یہ جانچنا ضروری ہے۔‘‘