اسلام آباد —
امریکہ کے صدر براک اوباما کے ’اسیٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب میں افغانستان سے آئندہ سال کے دوران مزید 34 ہزار امریکی فوجیوں کی واپسی اور افغان جنگ کے خاتمے سے متعلق اعلان کو پاکستان میں اراکین پارلیمان اور غیر جانبدار مبصرین نے مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔
قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی برائے اُمور خارجہ کی ایک فعال رکن پلوشہ خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد بھی خطے میں امن کی کوششیں متاثر نا ہوں۔
پلوشہ خان کہتی ہیں کہ افغانستان میں دیرپا قیام امن کے لیے پاکستان کا کردار کلیدی ہو گا۔
’’افغانستان میں امن کے عمل کے لیے خاص طور پر انخلا کے بعد پاکستان کا کردار مزید بڑھ جائے گا اور ایسا ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کو اس عمل میں شامل کیے بغیر وہاں دیرپا امن کا تصور کیا جائے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ ایسا لائحہ عمل وضع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ’’افغانستان سے انخلاء کے اثرات پاکستان پر نا پڑیں۔‘‘
تجریہ کار پروفیسر رسول بخش رئیس کا افغانستان سے فوجیوں کے انخلاء کے اعلان پر کہنا تھا کہ ’’صدر اوباما نے اپنی سٹیٹ آف یونین خطاب میں میں کانگریس کے سامنے، قوم کے سامنے، ساری دنیا کے سامنے بات کی ہے کہ اس سال کے آخر تک 34,000 کے قریب امریکی فوجی واپس چلے جائیں گے تو اس سے جو علاقے کے حالات پچھلے دس سال سے بگڑ رہے ہیں وہ سلجھنا شروع ہو جائیں گے بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے لیے ایک بہت ہی مثبت پہلو ہے۔‘‘
پروفیسر رسول بخش ریئس کہتے ہیں کہ مختلف حلقوں کی جانب سے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے لیکن اُن کے بقول بین الاقوامی افواج کے چلے جانے کے بعد دیرپا امن کا قیام مذاکرات ہی سے ممکن ہے اور افغانستان میں مصالحتی عمل میں پاکستان کا کردار نمایاں ہو گا۔
’’ظاہر ہے جب طالبان کے ساتھ ایک سمجھوتا کرنا ہے تو پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہو گا اور پاکستان پہلے ہی سے یہ کردار ادا کر رہا ہے اور اس میں ہمارا جو بنیادی مفاد ہےکہ وہاں سے بیرونی طاقتیں چلی جائیں۔ افغانستان کے لوگ آپس میں صلح صفائی کے ساتھ متحد ہو کر رہیں اور ان کے استحکام سے ہی ہمارا سیاسی اور معاشرتی استحکام ممکن ہے۔‘‘
حکمران جماعت کی رکن قومی اسمبلی پلوشہ خان کہتی ہیں کہ ان کا ملک بھی پرامن افغانستان کا خواہاں ہے لیکن امریکی افواج کے چلے جانے کے بعد افغان سکیورٹی فورسز سلامتی کی ذمہ داریاں پوری طرح نبھا سکیں گی یا نہیں اس بارے میں اب بھی اُن کے بقول بہت سے خدشات ہیں۔
’’اب جب کہ پاکستان انسداد دہشت گردی کی اس جنگ میں اتنی قربانی دے چکا ہے، ہم نہیں چاہتے کہ کسی انخلا کے بعد یہاں حالات مزید خراب ہوں۔‘‘
افغانستان میں تعینات امریکی فوج نے گزشتہ ہفتے ہی اپنے عسکری ساز و سامان کی پہلی کھیپ پاکستان کے راستے منتقل کی تھی اور اس عمل کی تکمیل کے لیے پاکستان کے زمینی راستے کو ہی استعمال کیا جانا ہے۔
قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی برائے اُمور خارجہ کی ایک فعال رکن پلوشہ خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد بھی خطے میں امن کی کوششیں متاثر نا ہوں۔
پلوشہ خان کہتی ہیں کہ افغانستان میں دیرپا قیام امن کے لیے پاکستان کا کردار کلیدی ہو گا۔
’’افغانستان میں امن کے عمل کے لیے خاص طور پر انخلا کے بعد پاکستان کا کردار مزید بڑھ جائے گا اور ایسا ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کو اس عمل میں شامل کیے بغیر وہاں دیرپا امن کا تصور کیا جائے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ ایسا لائحہ عمل وضع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ’’افغانستان سے انخلاء کے اثرات پاکستان پر نا پڑیں۔‘‘
تجریہ کار پروفیسر رسول بخش رئیس کا افغانستان سے فوجیوں کے انخلاء کے اعلان پر کہنا تھا کہ ’’صدر اوباما نے اپنی سٹیٹ آف یونین خطاب میں میں کانگریس کے سامنے، قوم کے سامنے، ساری دنیا کے سامنے بات کی ہے کہ اس سال کے آخر تک 34,000 کے قریب امریکی فوجی واپس چلے جائیں گے تو اس سے جو علاقے کے حالات پچھلے دس سال سے بگڑ رہے ہیں وہ سلجھنا شروع ہو جائیں گے بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے لیے ایک بہت ہی مثبت پہلو ہے۔‘‘
پروفیسر رسول بخش ریئس کہتے ہیں کہ مختلف حلقوں کی جانب سے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے لیکن اُن کے بقول بین الاقوامی افواج کے چلے جانے کے بعد دیرپا امن کا قیام مذاکرات ہی سے ممکن ہے اور افغانستان میں مصالحتی عمل میں پاکستان کا کردار نمایاں ہو گا۔
’’ظاہر ہے جب طالبان کے ساتھ ایک سمجھوتا کرنا ہے تو پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہو گا اور پاکستان پہلے ہی سے یہ کردار ادا کر رہا ہے اور اس میں ہمارا جو بنیادی مفاد ہےکہ وہاں سے بیرونی طاقتیں چلی جائیں۔ افغانستان کے لوگ آپس میں صلح صفائی کے ساتھ متحد ہو کر رہیں اور ان کے استحکام سے ہی ہمارا سیاسی اور معاشرتی استحکام ممکن ہے۔‘‘
حکمران جماعت کی رکن قومی اسمبلی پلوشہ خان کہتی ہیں کہ ان کا ملک بھی پرامن افغانستان کا خواہاں ہے لیکن امریکی افواج کے چلے جانے کے بعد افغان سکیورٹی فورسز سلامتی کی ذمہ داریاں پوری طرح نبھا سکیں گی یا نہیں اس بارے میں اب بھی اُن کے بقول بہت سے خدشات ہیں۔
’’اب جب کہ پاکستان انسداد دہشت گردی کی اس جنگ میں اتنی قربانی دے چکا ہے، ہم نہیں چاہتے کہ کسی انخلا کے بعد یہاں حالات مزید خراب ہوں۔‘‘
افغانستان میں تعینات امریکی فوج نے گزشتہ ہفتے ہی اپنے عسکری ساز و سامان کی پہلی کھیپ پاکستان کے راستے منتقل کی تھی اور اس عمل کی تکمیل کے لیے پاکستان کے زمینی راستے کو ہی استعمال کیا جانا ہے۔