امریکہ کے صدر براک اوباما نے جمعرات کو برطانیہ پر زور دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں تعاون کے لیے اپنے یورپی اتحادیوں سے قریبی تعلق رکھے۔
یہ بات کہنے کا مقصد برطانوی عوام کو یورپی یونین میں رہنے کے لیے قائل کرنا ہے۔ صدر اوباما نے یہ بات جمعرات کو رات دیر گئے لندن پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد ہی روزنامہ ’ڈیلی ٹیلی گراف‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہی۔
اوباما برطانیہ کے سرکاری دورے پر ہیں جس کا مقصد برطانوی عوام کو اس بات پر قائل کرنا ہے کہ وہ 23 جون کو متوقع ریفرنڈم میں 28 رکنی یورپی یونین کو چھوڑنے کا فیصلہ نہ کریں۔
’’اگرچہ ہم اپنی خود مختاری کو بہت عزیز سمجھتے ہیں مگر جو قومیں دوسری قوموں پر اپنا اثر و رسوخ مؤثر ترین طریقے سے استعمال کرتی ہیں وہ ایسا اجتماعی اقدامات کے ذریعے کرتی ہیں جن کا مطالبہ آج کے چیلنجز ہم سے کرتے ہیں۔‘‘
’’انٹیلی جنس کے تبادلے اور انسداد دہشت گردی سے لے کر ملازمتیں پیدا کرنے اور اقتصادی ترقی کے لیے گئے معاہدوں تک ۔۔۔ اس طرح کا تعاون اگر پورے یورپ کے ساتھ کیا جائے تو یہ بہت مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘
برطانیہ نے اس وقت 28 ممالک پر مشتمل یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے سوال پر ملک میں ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا تھا جب فروری میں وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اور یورپی حکام برطانیہ کو یورپی یونین میں رکھنے کے لیے خصوصی رعائیتوں کے معاہدے پر متفق نہ ہو سکے تھے۔
ہر سال بڑی تعداد میں یورپی یونین کے ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن برطانیہ داخل ہوتے ہیں اور وہاں کے فلاحی وظائف سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وزیر اعظم کیمرون یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے کم آمدن والے افراد کو دیے جانے والے وظائف کو چار سال کے لیے روکنا چاہتے تھے جو ان کے بقول ملکی بجٹ پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ اس کے لیے وہ یورپی یونین سے اصلاحات چاہتے تھے مگر اس پر اتفاق نہ ہو سکا۔
ڈیوڈ کیمرون یہ کہہ چکے ہیں کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے الگ ہونے کے متعلق ریفرنڈم کے نتائج حتمی ہوں گے۔
تاہم انہوں نے اس بات پر بھی متنبہ کیا کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے الگ ہو جانے کی صورت میں ملک کی اقتصادی اور ملکی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
یورپی یونین میں شریک ہونے کے بعد اب تک کوئی بھی ملک اس سے الگ نہیں ہوا ہے۔