برطانوی حکومت اب تک فرانس اور بیلجئم جیسے یورپی ممالک کی طرز پر کسی اقدام کی مخالفت کرتی آئی ہے جہاں مسلمان خواتین کے عوامی مقامات پر برقع پہننے پر پابندی عائد ہے۔
واشنگٹن —
برطانوی حکومت کے ایک وزیر نے عدالتوں میں مسلمان خواتین کے برقع پہن کر آنے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
برطانوی وزیر کین کلارک نے یہ مطالبہ پیر کو نشر ہونے والے ایک ریڈیو انٹرویو میں کیا ہے جس میں انہوں نے برقع کو ایک ایسی "بوری" سے تشبیہ دی جو ان کے بقول "اکیسویں صدی کے لوگوں کے لیے ایک انتہائی عجیب و غریب لباس ہے"۔
کین کلارک ماضی میں برطانیہ کے وزیرِ داخلہ بھی رہ چکے ہیں جب کہ موجودہ وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون کی کابینہ میں وزیر بے محکمہ ہیں۔
وکالت کے پیشے سے وابستہ رہنے والے جناب کلارک نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ کسی خاتون کو برقع پہن کر عدالت میں گواہی دینے کی اجازت ہونی چاہیے اور اس عمل کو روکنے کے لیے واضح قواعد و ضوابط وضع کیے جانے چاہئیں۔
برطانوی وزیرکا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں جج اور جیوری برقع میں چھپی کسی خاتون کی گواہی کے درست یا غلط ہونے کا تعین نہیں کرسکتے اور ان کے بقول، "بوری میں چھپے فرد " کی گواہی کی بنیاد پر چلنے والے مقدمات میں انصاف کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
اپنے انٹرویو میں برطانوی وزیر نے کہا کہ جج کے لیے ضروری ہے کہ وہ گواہی دینے والے فرد کی بدن بولی اور چہرے کے تاثرات کا جائزہ لے سکے تاکہ اس کے لیے سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا ممکن ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ چہرے کے نقاب کی صورت میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا جو انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔
لیکن کین کلارک نے واضح کیا کہ برقع پر پابندی کا ان کامطالبہ صرف کمرۂ عدالت کے لیے ہے اور انہیں اس بات سے کوئی سرو کار نہیں کہ عدالت کے باہر کوئی شخص کس طرح کا لباس پہنتا ہے۔
برطانوی وزیر کا یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب برطانیہ میں مسلمان خواتین کا برقع اور حجاب کئی طرح کے تنازعات کی لپیٹ میں آکر قومی سطح پر موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
برطانوی ذرائع ابلاغ کے مطابق حال ہی میں ایک ایسا مشتبہ شخص برقع پہن کر پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر فرار ہوگیا تھا جس پر صومالیہ کی دہشت گرد تنظیم 'الشباب' سے رابطوں کا الزام تھا۔
اطلاعات کے مطابق محمد احمد محمد نامی صومالی نوجوان گزشتہ جمعے کو لندن کی ایک مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد وہاں سے برقع پہن کر فرار ہوگیا تھا۔ لندن پولیس مذکورہ نوجوان کی کافی عرصے سے نگرانی کر رہی تھی لیکن برقع میں ہونے کے باعث اس کی نگرانی پر معمور اہلکاروں کو اس کے نکلنے کا علم نہیں ہوا تھا۔
برطانوی پولیس نے مشتبہ نوجوان کی تلاش کے لیے مہم شروع کر رکھی ہے۔گزشتہ 10 ماہ میں اپنی نوعیت کا یہ دوسرا واقعہ ہے جس کے بعد برطانوی حکومت نے برقع سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کا عندیہ دیا ہے۔
مشتبہ صومالی نژاد برطانوی نوجوان کے فرار کے واقعہ کے بعد برطانوی وزیرِداخلہ تھریسا مے نے کہا ہے کہ ان کی وزارت "اس واقعے سے حاصل ہونے والے سبق کی روشنی میں صورتِ حال کا از سرِ نو جائزہ لے گی"۔
تاہم برطانوی وزیرِداخلہ نے خود اپنی ہی جماعت 'کنزرویٹو' کے بعض رہنماؤں کی جانب سے اس واقعے کی بنیاد پر برقع پر پابندی عائد کرنے کے مطالبات کو مسترد کردیا ہے۔
پیر کو برطانوی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئےتھریسا مے نے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لیے اپنی مرضی کے لباس کا انتخاب کرسکیں۔
خیال رہے کہ برطانیہ میں 27 لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں جنہیں ان کی مذہبی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئےبرطانوی معاشرے میں بہتر طریقے سے ضم کرنے کی غرض سے کیمرون حکومت کئی اقدامات پر غور کر رہی ہے۔
برطانوی حکومت اب تک فرانس اور بیلجئم جیسے یورپی ممالک کی طرز پر کسی اقدام کی مخالفت کرتی آئی ہے جہاں مسلمان خواتین کے عوامی مقامات پر برقع پہننے پر پابندی عائد ہے۔
برطانوی وزیر کین کلارک نے یہ مطالبہ پیر کو نشر ہونے والے ایک ریڈیو انٹرویو میں کیا ہے جس میں انہوں نے برقع کو ایک ایسی "بوری" سے تشبیہ دی جو ان کے بقول "اکیسویں صدی کے لوگوں کے لیے ایک انتہائی عجیب و غریب لباس ہے"۔
کین کلارک ماضی میں برطانیہ کے وزیرِ داخلہ بھی رہ چکے ہیں جب کہ موجودہ وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون کی کابینہ میں وزیر بے محکمہ ہیں۔
وکالت کے پیشے سے وابستہ رہنے والے جناب کلارک نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ کسی خاتون کو برقع پہن کر عدالت میں گواہی دینے کی اجازت ہونی چاہیے اور اس عمل کو روکنے کے لیے واضح قواعد و ضوابط وضع کیے جانے چاہئیں۔
برطانوی وزیرکا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں جج اور جیوری برقع میں چھپی کسی خاتون کی گواہی کے درست یا غلط ہونے کا تعین نہیں کرسکتے اور ان کے بقول، "بوری میں چھپے فرد " کی گواہی کی بنیاد پر چلنے والے مقدمات میں انصاف کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
اپنے انٹرویو میں برطانوی وزیر نے کہا کہ جج کے لیے ضروری ہے کہ وہ گواہی دینے والے فرد کی بدن بولی اور چہرے کے تاثرات کا جائزہ لے سکے تاکہ اس کے لیے سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا ممکن ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ چہرے کے نقاب کی صورت میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا جو انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔
لیکن کین کلارک نے واضح کیا کہ برقع پر پابندی کا ان کامطالبہ صرف کمرۂ عدالت کے لیے ہے اور انہیں اس بات سے کوئی سرو کار نہیں کہ عدالت کے باہر کوئی شخص کس طرح کا لباس پہنتا ہے۔
برطانوی وزیر کا یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب برطانیہ میں مسلمان خواتین کا برقع اور حجاب کئی طرح کے تنازعات کی لپیٹ میں آکر قومی سطح پر موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
برطانوی ذرائع ابلاغ کے مطابق حال ہی میں ایک ایسا مشتبہ شخص برقع پہن کر پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر فرار ہوگیا تھا جس پر صومالیہ کی دہشت گرد تنظیم 'الشباب' سے رابطوں کا الزام تھا۔
اطلاعات کے مطابق محمد احمد محمد نامی صومالی نوجوان گزشتہ جمعے کو لندن کی ایک مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد وہاں سے برقع پہن کر فرار ہوگیا تھا۔ لندن پولیس مذکورہ نوجوان کی کافی عرصے سے نگرانی کر رہی تھی لیکن برقع میں ہونے کے باعث اس کی نگرانی پر معمور اہلکاروں کو اس کے نکلنے کا علم نہیں ہوا تھا۔
برطانوی پولیس نے مشتبہ نوجوان کی تلاش کے لیے مہم شروع کر رکھی ہے۔گزشتہ 10 ماہ میں اپنی نوعیت کا یہ دوسرا واقعہ ہے جس کے بعد برطانوی حکومت نے برقع سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کا عندیہ دیا ہے۔
مشتبہ صومالی نژاد برطانوی نوجوان کے فرار کے واقعہ کے بعد برطانوی وزیرِداخلہ تھریسا مے نے کہا ہے کہ ان کی وزارت "اس واقعے سے حاصل ہونے والے سبق کی روشنی میں صورتِ حال کا از سرِ نو جائزہ لے گی"۔
تاہم برطانوی وزیرِداخلہ نے خود اپنی ہی جماعت 'کنزرویٹو' کے بعض رہنماؤں کی جانب سے اس واقعے کی بنیاد پر برقع پر پابندی عائد کرنے کے مطالبات کو مسترد کردیا ہے۔
پیر کو برطانوی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئےتھریسا مے نے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لیے اپنی مرضی کے لباس کا انتخاب کرسکیں۔
خیال رہے کہ برطانیہ میں 27 لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں جنہیں ان کی مذہبی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئےبرطانوی معاشرے میں بہتر طریقے سے ضم کرنے کی غرض سے کیمرون حکومت کئی اقدامات پر غور کر رہی ہے۔
برطانوی حکومت اب تک فرانس اور بیلجئم جیسے یورپی ممالک کی طرز پر کسی اقدام کی مخالفت کرتی آئی ہے جہاں مسلمان خواتین کے عوامی مقامات پر برقع پہننے پر پابندی عائد ہے۔