ایشیا کے لیے ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر فل رابرٹسن کہتے ہیں کہ انتہا پسندوں کو پتہ چل گیا ہے کہ وہ جب چاہیں مسلمانوں پر حملے کر سکتے ہیں اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔
بینکاک —
برما پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ ان لوگوں کی جوابدہی کرے جو مارچ میں فرقہ وارانہ تشدد کے ذمہ دار ہیں۔ ان ہنگاموں میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
43 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے اور ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے۔ ان حملوں سے مسلمانوں کی آبادی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور فرقہ وارانہ بے چینی پھیل جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
وسطی برما کے قصبے میکتیلا میں ایک بدھسٹ گاہک اور مسلمان سنار کے درمیان معمولی سے جھگڑے نے مسلمان آبادی کے خلاف تین دن تک جاری رہنے والے فسادات کی شکل اختیار کر لی۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے سیٹلائٹ سے لی ہوئی جو تصویریں جاری کی ہیں ان میں دکھایا گیا ہے کہ پورے کے پورے محلے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
اس تشدد سے ان فسادات کی یاد تازہ ہوگئی جو گزشتہ سال مغربی راکین صوبے میں ہوئے تھے۔
ایشیا کے لیے ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر فل رابرٹسن کہتے ہیں کہ انتہا پسندوں کو پتہ چل گیا ہے کہ وہ جب چاہیں مسلمانوں پر حملے کر سکتے ہیں اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔
‘‘ہم نے میکتیلا میں جو کچھ دیکھا وہ یہ تھا کہ مختلف لوگوں کے ہجوم مسجدوں پر حملے کر رہے تھے اور آبادیوں کو تباہ کر رہے تھے اور پولیس ان ہجوموں کے گرد بیٹھی ہوئی تھی یا ان کے پیچھے کھڑی ہوئی تھی ۔ وہ امن و امان قائم کرنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے تھے ؟۔ پولیس یہ تفتیش کیوں نہیں کرتی کہ اس تشدد کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ۔ وہ کون لوگ ہیں جنھوں نے تشدد کی کارروائیاں کیں اور وہ کون ہیں جنھوں نے لوگوں کو اشتعال دلایا اور انہیں فسادات پر اکسایا؟۔’’
قومی میڈیا پر خطاب کرتے ہوئے صدر تھین سین نے تسلیم کیا کہ ان فسادات سے برما کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ انھوں نے مذہبی کشیدگی کے قابو سے باہر ہونے اور اصلاحات میں خلل ڈالنے کے خلاف انتباہ کیا۔
حکام نے اس تشدد کے سلسلے میں 70 افراد کی گرفتاری کا اعلان کیا ہے، لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ جن لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے ان پر مقدمہ چلایا جائے گا یا نہیں۔
برما کے لیے اقوامِ متحدہ کے کوارڈینیٹر اشوک نگم نے قانون پر عمل درآمد کرنے پر زور دیا ہے۔
‘‘اہم بات یہ ہے کہ قانون کی عملداری ہو اور جن لوگوں نے یہ جرم کیے ہیں، انہیں انصاف کے کٹھرے تک لایا جائے۔ اس طرح مستقبل میں اس قسم کے واقعات سے بچاؤ کے لیے بھی اہم پیغامات ملیں گے۔’’
گزشتہ سال راکین صوبے کے فسادات میں تقریباً 200 افراد ہلاک ہوئے اور ایک لاکھ بیس ہزار افراد کو امدادی کیمپوں میں پہنچا یا گیا۔ ان میں بیشتر لوگ روہنگیا مسلمان تھے جنہیں برما کا شہری تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ ان فسادات کے لیے بہت کم لوگوں کی جوابدہی ہوئی ہے۔
اب تک تقریباً پچیس ہزار روہنگیا پُر ہجوم کشتیوں میں سوار ہو کر ہمسایہ ملکوں کی طرف فرار ہو گئے ہیں۔
فل رابرٹسن کہتے ہیں کہ جو باقی بچے ہیں ان پر مایوسی طاری ہے اور بارشوں کے آنے والے موسم میں مزید تباہی آئے گی۔
‘‘روہنگیا کو صحت کے ایک بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کھانے پینے کی چیزوں اور بنیادی غذائیت کی کمی کی وجہ سے وہ پہلے ہی بہت کمزور ہو چکے ہیں ۔ لہٰذا یہ ایک بڑی تباہی ہے جو آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے اور جب بارشیں شروع ہوں گی تو اس میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔’’
رنگون میں مسلمانوں کے ایک لیڈر اور ریلیجنس فار پیس کونسل کے رکن الحاج آئیی لیون کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں پر حملے بڑے منظم انداز سے ہو رہے ہیں اور ان کا مقصد فرقہ ورانہ کشیدگی پیدا کرنا ہے۔
‘‘میں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ عوامی سطح پر تعلقات بہت اچھے ہیں، لیکن کچھ لوگوں کو اکسایا گیا ہے اور بڑے منظم انداز سے کچھ ایسے جال بچھائے گئے ہیں کہ یہ ایک نسلی اور مذہبی مسئلہ بن جائے۔’’
اب جب کہ برما میں جمہوری اصلاحات کے نتیجے میں اکثریت کی حکومت قائم ہو رہی ہے، انسانی حقوق کے کارکن اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے، اور ملک اپنے شاندار نسلی اور مذہبی تنوع کی قدر کرے۔
43 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے اور ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے۔ ان حملوں سے مسلمانوں کی آبادی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور فرقہ وارانہ بے چینی پھیل جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
وسطی برما کے قصبے میکتیلا میں ایک بدھسٹ گاہک اور مسلمان سنار کے درمیان معمولی سے جھگڑے نے مسلمان آبادی کے خلاف تین دن تک جاری رہنے والے فسادات کی شکل اختیار کر لی۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے سیٹلائٹ سے لی ہوئی جو تصویریں جاری کی ہیں ان میں دکھایا گیا ہے کہ پورے کے پورے محلے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
اس تشدد سے ان فسادات کی یاد تازہ ہوگئی جو گزشتہ سال مغربی راکین صوبے میں ہوئے تھے۔
ایشیا کے لیے ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر فل رابرٹسن کہتے ہیں کہ انتہا پسندوں کو پتہ چل گیا ہے کہ وہ جب چاہیں مسلمانوں پر حملے کر سکتے ہیں اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔
‘‘ہم نے میکتیلا میں جو کچھ دیکھا وہ یہ تھا کہ مختلف لوگوں کے ہجوم مسجدوں پر حملے کر رہے تھے اور آبادیوں کو تباہ کر رہے تھے اور پولیس ان ہجوموں کے گرد بیٹھی ہوئی تھی یا ان کے پیچھے کھڑی ہوئی تھی ۔ وہ امن و امان قائم کرنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے تھے ؟۔ پولیس یہ تفتیش کیوں نہیں کرتی کہ اس تشدد کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ۔ وہ کون لوگ ہیں جنھوں نے تشدد کی کارروائیاں کیں اور وہ کون ہیں جنھوں نے لوگوں کو اشتعال دلایا اور انہیں فسادات پر اکسایا؟۔’’
قومی میڈیا پر خطاب کرتے ہوئے صدر تھین سین نے تسلیم کیا کہ ان فسادات سے برما کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ انھوں نے مذہبی کشیدگی کے قابو سے باہر ہونے اور اصلاحات میں خلل ڈالنے کے خلاف انتباہ کیا۔
حکام نے اس تشدد کے سلسلے میں 70 افراد کی گرفتاری کا اعلان کیا ہے، لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ جن لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے ان پر مقدمہ چلایا جائے گا یا نہیں۔
برما کے لیے اقوامِ متحدہ کے کوارڈینیٹر اشوک نگم نے قانون پر عمل درآمد کرنے پر زور دیا ہے۔
‘‘اہم بات یہ ہے کہ قانون کی عملداری ہو اور جن لوگوں نے یہ جرم کیے ہیں، انہیں انصاف کے کٹھرے تک لایا جائے۔ اس طرح مستقبل میں اس قسم کے واقعات سے بچاؤ کے لیے بھی اہم پیغامات ملیں گے۔’’
گزشتہ سال راکین صوبے کے فسادات میں تقریباً 200 افراد ہلاک ہوئے اور ایک لاکھ بیس ہزار افراد کو امدادی کیمپوں میں پہنچا یا گیا۔ ان میں بیشتر لوگ روہنگیا مسلمان تھے جنہیں برما کا شہری تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ ان فسادات کے لیے بہت کم لوگوں کی جوابدہی ہوئی ہے۔
اب تک تقریباً پچیس ہزار روہنگیا پُر ہجوم کشتیوں میں سوار ہو کر ہمسایہ ملکوں کی طرف فرار ہو گئے ہیں۔
فل رابرٹسن کہتے ہیں کہ جو باقی بچے ہیں ان پر مایوسی طاری ہے اور بارشوں کے آنے والے موسم میں مزید تباہی آئے گی۔
‘‘روہنگیا کو صحت کے ایک بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کھانے پینے کی چیزوں اور بنیادی غذائیت کی کمی کی وجہ سے وہ پہلے ہی بہت کمزور ہو چکے ہیں ۔ لہٰذا یہ ایک بڑی تباہی ہے جو آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے اور جب بارشیں شروع ہوں گی تو اس میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔’’
رنگون میں مسلمانوں کے ایک لیڈر اور ریلیجنس فار پیس کونسل کے رکن الحاج آئیی لیون کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں پر حملے بڑے منظم انداز سے ہو رہے ہیں اور ان کا مقصد فرقہ ورانہ کشیدگی پیدا کرنا ہے۔
‘‘میں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ عوامی سطح پر تعلقات بہت اچھے ہیں، لیکن کچھ لوگوں کو اکسایا گیا ہے اور بڑے منظم انداز سے کچھ ایسے جال بچھائے گئے ہیں کہ یہ ایک نسلی اور مذہبی مسئلہ بن جائے۔’’
اب جب کہ برما میں جمہوری اصلاحات کے نتیجے میں اکثریت کی حکومت قائم ہو رہی ہے، انسانی حقوق کے کارکن اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے، اور ملک اپنے شاندار نسلی اور مذہبی تنوع کی قدر کرے۔