طرفین تحمل سے کام لیں: ترجمان امریکی محکمہٴ خارجہ
مغربی برما میں تشدد اور تفرقے کی صورتِ حال بگڑ رہی ہے جہاں بدھوں اور مسلمانوں کے درمیان تنازعہ گہرا ہوتا جارہا ہے، جس کے مہلک نتائج برآمد ہورہے ہیں۔
ریاستِ رکھائن کےایک ترجمان نے جمعرات کو بتایا کہ اتوار کو شروع ہونے والی تازہ جھڑپوں کے دوران اب تک کم از کم 56افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں 31خواتین شامل ہیں جب کہ درجنوں دیگر افراد زخمی ہوچکے ہیں۔
علاقے کے کچھ حصے جل کر راکھ ہو چکے ہیں۔
برما کےحکام کا کہنا ہے کہ تازہ جھڑپوں میں اب تک آگ لگنے کےواقعات میں تقریباً 2000گھر اور ساتھ ہی آٹھ مذہبی عمارتیں نذر آتش کی گئی ہیں۔
زندہ بچ جانے والوں نےتشدد کی کارروائیوں کےبارے میں چونکا دینے والی داستانیں سنائی ہیں۔
اِن میں سے ایک شخص نے بتایا ہے کہ پیر کو’مروک او‘ نامی قصبے میں ہونے والی لڑائی کے دوران اُن کے والد، سائن تھر آنگ شدید زخمی ہوئے ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ جب اس جھڑپ کا آغاز ہوا، روہنگیا گاؤں کی سڑک پر جب کہ ہم لوگ پیچھے کھڑے تھے۔
سائن تھر آنگ ایک گروہ کی قیادت کر رہا تھا۔ ایسے میں، کلر نامی ایک روہنگیا ایک گھر کی کھڑکی سے نمودار ہوا اور چھلانگ لگا کر، چھری سے اُن پر وار کیا۔
صدر کے دفتر کے وابستہ ایک شخص، زاہتے نے ’وائس آف امریکہ‘ کی برمی سروس کو بتایا کہ اِس معاملے میں حکومت کارروائی کر رہی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ مروک او، مئےبون، منبیا اور کویوک پھو کے چار قصبوں میں جو تشدد کی وارداتوں کی زد میں ہیں، کرفیو نافذ کیا جارہا ہے۔
تاہم، کچھ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اب تک فوج امن و امان برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے، جب کہ کچھ لوگ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ لڑائی پر قابو پانے کی غرض سے اور ڈرانے دھمکانے کی خاطر فوجی فائر کھول دیتے ہیں۔
امریکی محکمہٴ خارجہ کی ترجمان، وکٹوریا نولینڈ نے بھی طرفین کو تحمل کی تلقین کی ہے۔
نولینڈ نے مزید کہا کہ تشدد کے واقعات کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ سارے نسلی و مذہبی گروہ ایک دوسرے کی جان و مال کا خیال کریں۔
ریاستِ رکھائن کےایک ترجمان نے جمعرات کو بتایا کہ اتوار کو شروع ہونے والی تازہ جھڑپوں کے دوران اب تک کم از کم 56افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں 31خواتین شامل ہیں جب کہ درجنوں دیگر افراد زخمی ہوچکے ہیں۔
علاقے کے کچھ حصے جل کر راکھ ہو چکے ہیں۔
برما کےحکام کا کہنا ہے کہ تازہ جھڑپوں میں اب تک آگ لگنے کےواقعات میں تقریباً 2000گھر اور ساتھ ہی آٹھ مذہبی عمارتیں نذر آتش کی گئی ہیں۔
زندہ بچ جانے والوں نےتشدد کی کارروائیوں کےبارے میں چونکا دینے والی داستانیں سنائی ہیں۔
اِن میں سے ایک شخص نے بتایا ہے کہ پیر کو’مروک او‘ نامی قصبے میں ہونے والی لڑائی کے دوران اُن کے والد، سائن تھر آنگ شدید زخمی ہوئے ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ جب اس جھڑپ کا آغاز ہوا، روہنگیا گاؤں کی سڑک پر جب کہ ہم لوگ پیچھے کھڑے تھے۔
سائن تھر آنگ ایک گروہ کی قیادت کر رہا تھا۔ ایسے میں، کلر نامی ایک روہنگیا ایک گھر کی کھڑکی سے نمودار ہوا اور چھلانگ لگا کر، چھری سے اُن پر وار کیا۔
صدر کے دفتر کے وابستہ ایک شخص، زاہتے نے ’وائس آف امریکہ‘ کی برمی سروس کو بتایا کہ اِس معاملے میں حکومت کارروائی کر رہی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ مروک او، مئےبون، منبیا اور کویوک پھو کے چار قصبوں میں جو تشدد کی وارداتوں کی زد میں ہیں، کرفیو نافذ کیا جارہا ہے۔
تاہم، کچھ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اب تک فوج امن و امان برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے، جب کہ کچھ لوگ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ لڑائی پر قابو پانے کی غرض سے اور ڈرانے دھمکانے کی خاطر فوجی فائر کھول دیتے ہیں۔
امریکی محکمہٴ خارجہ کی ترجمان، وکٹوریا نولینڈ نے بھی طرفین کو تحمل کی تلقین کی ہے۔
نولینڈ نے مزید کہا کہ تشدد کے واقعات کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ سارے نسلی و مذہبی گروہ ایک دوسرے کی جان و مال کا خیال کریں۔