برما میں اقتصادی اصلاحات سُست روی کا شکار

官方宣傳畫用漢藏兩種文字警告參與自焚者自首﹐否則將從嚴處罰。

برما میں جمہوری اصلاحات دنیا کی نظر میں آ رہی ہیں، لیکن وہاں اقتصادی ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئی ہیں، ان کی رفتار سُست رہی ہے۔عام استعمال کی اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے عوام میں بے چینی پھیل رہی ہے، اور تبدیلی کے لیے لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ جنوب مشرقی ایشیا میں برما کی معیشت سب سے مضبوط تھی، لیکن فوجی حکمرانوں کے ہاتھوں کئی عشروں کی بد انتظامی کی وجہ سے، اب چھ کروڑ آبادی والے اس ملک کی ایک تہائی آبادی غربت کا شکار ہے۔ ملک میں قدرتی وسائل کی کمی نہیں اور حکام معیشت کی بحالی کے لیے بےچین ہیں۔ وہ برما کے محلِ وقوع سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں جو ایشیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں، چین اور بھارت کا ہمسایہ ہے۔

لیکن سڈنی کی ماقوار یونیورسٹی کے شان ٹرنل جیسے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حکومت میں بعض قدامت پسند عناصر معیشت کو ضابطوں سے آزاد کرنے کی پالیسی کی مزاحمت کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق ’’بنیادی نوعیت کی اہم اصلاحات، یعنی وہ چیزیں جن کی ملک کو واقعی ضرورت ہے، جیسے زرِ مبادلہ کی شرح کو تبدیل کرنا، املاک کے حقوق اور قانون کی حکمرانی کے لیئے اور زیادہ ملکوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنا، وغیرہ۔ یہ چیزیں صحیح معنوں میں اہم ہیں۔ یہ وہ اہم چیزیں ہیں جن پر کام ابھی شروع کیا جانا ہے۔‘‘

گذشتہ سال حکومت نے کاریں در آمد کرنے والی اور کھانے کے تیل کی تجارت کرنے والی کمپنیوں کی بعض اجارے داریوں کو ختم کر دیا تھا۔ حکومت نے بر آمدی ٹیکس بھی کم کر دیے اور ملک سے باہر رہنے والے شہریوں پر سے انکم ٹیکس کی ادائیگی کی ضرورت کو ختم کر دیا۔ بعض منتخب پرائیویٹ بینکوں کو، تاریخ میں پہلی بار، غیر ملکی کرنسیوں کے کاروبار کی اجازت دے دی گئی۔

اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ ابھی اور بہت کچھ کرنا ضروری ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ سیاست داں تذبذب کا شکار ہیں۔ رنگون میں مقیم کن مونگ نیو ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں جو فری لانس اقتصادی ماہرین گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم میں سے بیشتر لوگوں کو سیاسی اصلاحات کی توقع تھی کیوں کہ ہم ایک طویل عرصے سے سیاسی طور پر سخت پابندیوں میں رہ رہے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں اقتصادی اصلاحات کے لیے زیادہ علم و دانش، زیادہ قوتِ فیصلہ کی ضرورت ہے۔‘‘

اقتصادی ماہرین انتباہ کرتے ہیں کہ افراط ِ زر کی وجہ سے اصلاحات کی کوششوں میں خلل پڑ سکتا ہے۔

اتوار کے روز، حکام نے پیٹرو ل کی قیمتوں میں ، کسی وارننگ کے بغیر، 30 فیصد کا اضافہ کر دیا۔ 2007ء میں بھی قیمتوں میں اسی قسم کے اضافے پر ملک گیر احتجاج ہوئے تھے جو بعد میں حکومت مخالف تحریک کی شکل اختیار کر گئے۔

ٹرنل کہتے ہیں کہ اگرچہ اب بھی یہ خطرہ موجود ہے کہ قیمتوں میں بے تحاشا اضافے سے ملک میں بے چینی پھیل سکتی ہے، لیکن ملک میں اصلاحات کی تحریک سے لوگ مستقبل کے بارے میں اچھی اُمیدیں وابستہ کرنے لگے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ’’برما میں افراطِ زر کی شرح ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہی ہے۔ مثلاًً، یہ آسیان کے تمام ملکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ کسی حد تک گذشتہ سال کے دوران اس مسئلے کی شدت میں کچھ کمی آئی ہے کیوں کہ برما کی کرنسی کیاٹ کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ لہٰذا ، کم از کم ان لوگوں کے لیے جو تھائی لینڈ اور چین اور دوسرے ملکوں سے درآمد کی ہوئی اشیاء خریدتے ہیں، ایک طرح سے اس کی قوتِ خرید محفوظ رہی ہے۔‘‘

اگرچہ اقتصادی ماہرین متفق ہیں کہ برما کے لوگ قیمتوں میں اضافے کو برداشت کرنے کے عادی ہو گئے ہیں، لیکن کن مونگ نیو کہتے ہیں کہ حکام نے اقتصادی اصلاحات کے معاملے میں لوگوں کی توقعات بہت بڑھا دی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’اگر اقتصادی ترقی میں کچھ بہتری نہ آئی، تو ممکن ہے کہ ہماری نئی حکومت کی اقتصادی ساکھ خراب ہو جائے۔ لہٰذا، اقتصادی حالت میں بہتری لازمی طور پر ہونی چاہیئے۔ اگر معیشت میں کوئی نمایاں بہتری نہ آئی، تو حکومت کو اس سے نقصان ہو گا۔‘‘

کِن کہتے ہیں کہ برما کے خلاف امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے پابندیوں کی وجہ سے ، عالمی تجارت اور ٹکنالوجی تک برما کی رسائی بہت محدود ہو گئی ہے۔ یہ پابندیاں اٹھا لی جانی چاہئیں۔ بعض دوسرے ماہرین کا کہنا ہے کہ سزا کے طور پر عائد کی ہوئی پابندیاں، برما میں ہونے والی اصلاحات کے ساتھ ساتھ بتدریج انعام کے طور پر اٹھالی جانی چاہیئِں۔

اصلاحات کے خلاف برما میں داخلی مزاحمت کے باوجود، برما کی نئی حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔