برما کی حکومت کی جانب سےعام معافی کےاعلان کےبعدملکی جیلوں میں سیاسی بنیادوں پر قید سینکڑوں قیدی جمعہ کو رہا کردیے گئے۔
برمی حکام اور جمہوریت پسند کارکنوں کےمطابق جمعہ کورہا کیےجانے والے قیدیوں کی تعداد 651 ہے جنہیں ملک کی گزشتہ فوجی حکومتوں نے سیاسی اختلافات کی بنیاد پر قید کیا تھا۔
تاہم، فوج ہی کی حمایت سے ملک میں بننے والی نئی سول حکومت نے ماضی کی روایات کے برخلاف ملک میں سیاسی اصلاحات کا آغاز کرتے ہوئے مغربی ممالک کے ساتھ طویل عرصے سے خراب چلے آرہے تعلقات کا ازسرِ نو اعادہ کیا ہے۔
برمی حکومت کی انہی کوششوں کے طفیل حالیہ عرصے کے دوران امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن اور برطانوی وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے گزشتہ کئی دہائیوں سے فوجی آمریت کے زیرِ اثر چلے آرہے اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کا دورہ کیا ہے۔
سیاسی قیدیوں کی حالیہ رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے برطانوی وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ اس عمل سے ملک میں اصلاحات کے نفاذ کے لیے برمی حکومت کے عزم کا اظہار ہوتا ہے۔
برما کے سرکاری ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ قیدیوں کی رہائی ملک کے صدر تھین سین کی جانب سے عام معافی کے اعلان کے نتیجے میں ہوئی ہے، جِس کا مقصد ملک میں سیاسی مفاہمت کو فروغ دینا ہے۔
رہائی پانے والوں میں 1988ء کی ناکام جمہوریت پسند تحریک کےطالبِ علم رہنما من کو نینگ اور 2007ء میں بدھ بھکشووں کے احتجاجی مظاہروں کو منظم کرنے والے معروف بھکشو شین گمبیرا بھی شامل ہیں۔
برمی حکومت نے 'شان' نسل سے تعلق رکھنے والی ملک کی اقلیتی آبادی کے رہنما کھون ٹنہو کو بھی رہا کردیا ہے جنہیں بغاوت کے الزام میں 93 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان کے علاوہ رہا ہونے والوں میں ملک کے سابق وزیرِ اعظم اور خفیہ ادارے کے سربراہ کھین نیوٹ بھی شامل ہیں۔