انسانی حقوق کی تنظیموں کا الزام ہے کہ مسلمانوں اور بودھ فرقوں کی جھڑپوں پر قابوپانے کے دوران سیکیورٹی فورسز مبینہ طور پر زیادتیوں کی مرتکب ہوئیں تھیں۔ ان فسادات میں درجنوں افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہوگئے تھے
برما کے ایک عہدے دار نے مغربی صوبے راکین میں جون کے دوران ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کی آزادانہ تحقیقات کرنے سے متعلق اقوام متحدہ کے ایک سفارت کار کی اپیل مسترد کردی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا الزام ہے کہ مسلمانوں اور بودھ فرقوں کی جھڑپوں پر قابوپانے کے دوران سیکیورٹی فورسز مبینہ طور پر زیادتیوں کی مرتکب ہوئیں تھیں۔
ان فسادات میں درجنوں افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہوگئے تھے۔
برما کی حکومت کے ایک ترجمان نے اقوام متحدہ کی جانب سے قابل بھروسہ تحقیقات کا مطالبہ مسترد کردیا ہے۔
راکین میں بلوؤں سے متعلق اطلاعاتی کمیٹی کے چیئر مین لاتھین نے وائس آف امریکہ کی برمی سروس کو بتایا کہ یہ ایک اندورنی معاملہ ہے۔
ماہ جون میں مغربی صوبے راکین میں دونوں بودھ اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپوں میں کم ازکم 78 افراد ہلاک ہوگئے تھے ۔
گذشتہ ہفتے انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا تھا کہ جھڑپوں پر قابو پانے کے لیے برما کی حکومت نے جو سیکیورٹی دستے بھیجے تھےان کے بارے میں تشدد، جنسی زیادتیوں اور ہلاکتوں میں ملوث ہونے کی اطلاعات ہیں۔
حکومت ایسی کسی بھی شکایت کے وجود سے انکار کرچکی ہے۔
برما کے لیے اقوم متحدہ کے انسانی حقوق کے سفارت کار ٹومس اوہے کنتانا نے کہاہے فوری اور آزاد تحقیقات کرانے کی ضرورت ہے۔
کنتانا کا کہناہے کہ جمہوری تبدیلیوں کے مستقبل کے لیے ماضی کی رنجشوں کا ازالہ کیا جانا اشد ضروری ہے۔
بھاری تعداد میں سیکیورٹی دستوں کے باوجود راکین کی کمیونیٹز کے درمیان اب بھی شدید کشیدگی موجود ہے۔
مقامی ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اتوار کے روز چی اوک ٹو کے قصبے میں کئی گھروں کو نذر آتش کردیا گیا۔
ایشیا بھر کی مسلمان تنظیموں نے تشدد کے ان واقعات کی مذمت کی ہے جب کہ کچھ عسکریت پسند گروپوں نے جوابی کارروائی کی دھمکی بھی دی ہے۔
برما کے حکام نے اقوام متحدہ کے اداروں کے لیے کام کرنے والے مقامی اسٹاف پر بے چینی کی حوصلہ افزائی کرنے کاالزام لگاتے ہوئے انہیں گرفتار کر لیا ہے۔
برما میں فسادات کا آغاز تین مسلمانوں پر ایک بودھ خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد اسے قتل کردینے کے الزام کے بعد شروع ہوئے تھے۔
بظاہر اس کے ردعمل میں ایک بودھ مذہب کے ایک ہجوم نے مسلمانوں سے بھری ہوئی ایک بس پر حملہ کرکے دس افراد کو ہلاک کردیاتھا۔
اس کے جواب میں مسلمانوں کی جانب سے حملے شروع ہوگئے اور فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا۔جس کے نتیجے میں بستیوں کی بستیاں جلا ڈالی گئیں اور حکومت کو ہنگامی حالات کا نفاذ کرنا پڑا۔
برما کا سرکاری میڈیا فسادات کا زیادہ تر الزام روہنگیا مسلمانوں پر عائد کرتا ہے اور ان فسادات کو دہشت گردی قرار دیتا ہے۔
روہنگیا مسلمانوں کا تعلق اصل میں بنگلہ دیش سے ہے۔ لیکن دونوں میں سے کوئی بھی ملک انہیں اپنا شہری تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا الزام ہے کہ مسلمانوں اور بودھ فرقوں کی جھڑپوں پر قابوپانے کے دوران سیکیورٹی فورسز مبینہ طور پر زیادتیوں کی مرتکب ہوئیں تھیں۔
ان فسادات میں درجنوں افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہوگئے تھے۔
برما کی حکومت کے ایک ترجمان نے اقوام متحدہ کی جانب سے قابل بھروسہ تحقیقات کا مطالبہ مسترد کردیا ہے۔
راکین میں بلوؤں سے متعلق اطلاعاتی کمیٹی کے چیئر مین لاتھین نے وائس آف امریکہ کی برمی سروس کو بتایا کہ یہ ایک اندورنی معاملہ ہے۔
ماہ جون میں مغربی صوبے راکین میں دونوں بودھ اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپوں میں کم ازکم 78 افراد ہلاک ہوگئے تھے ۔
گذشتہ ہفتے انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا تھا کہ جھڑپوں پر قابو پانے کے لیے برما کی حکومت نے جو سیکیورٹی دستے بھیجے تھےان کے بارے میں تشدد، جنسی زیادتیوں اور ہلاکتوں میں ملوث ہونے کی اطلاعات ہیں۔
حکومت ایسی کسی بھی شکایت کے وجود سے انکار کرچکی ہے۔
برما کے لیے اقوم متحدہ کے انسانی حقوق کے سفارت کار ٹومس اوہے کنتانا نے کہاہے فوری اور آزاد تحقیقات کرانے کی ضرورت ہے۔
کنتانا کا کہناہے کہ جمہوری تبدیلیوں کے مستقبل کے لیے ماضی کی رنجشوں کا ازالہ کیا جانا اشد ضروری ہے۔
بھاری تعداد میں سیکیورٹی دستوں کے باوجود راکین کی کمیونیٹز کے درمیان اب بھی شدید کشیدگی موجود ہے۔
مقامی ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اتوار کے روز چی اوک ٹو کے قصبے میں کئی گھروں کو نذر آتش کردیا گیا۔
ایشیا بھر کی مسلمان تنظیموں نے تشدد کے ان واقعات کی مذمت کی ہے جب کہ کچھ عسکریت پسند گروپوں نے جوابی کارروائی کی دھمکی بھی دی ہے۔
برما کے حکام نے اقوام متحدہ کے اداروں کے لیے کام کرنے والے مقامی اسٹاف پر بے چینی کی حوصلہ افزائی کرنے کاالزام لگاتے ہوئے انہیں گرفتار کر لیا ہے۔
برما میں فسادات کا آغاز تین مسلمانوں پر ایک بودھ خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد اسے قتل کردینے کے الزام کے بعد شروع ہوئے تھے۔
بظاہر اس کے ردعمل میں ایک بودھ مذہب کے ایک ہجوم نے مسلمانوں سے بھری ہوئی ایک بس پر حملہ کرکے دس افراد کو ہلاک کردیاتھا۔
اس کے جواب میں مسلمانوں کی جانب سے حملے شروع ہوگئے اور فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا۔جس کے نتیجے میں بستیوں کی بستیاں جلا ڈالی گئیں اور حکومت کو ہنگامی حالات کا نفاذ کرنا پڑا۔
برما کا سرکاری میڈیا فسادات کا زیادہ تر الزام روہنگیا مسلمانوں پر عائد کرتا ہے اور ان فسادات کو دہشت گردی قرار دیتا ہے۔
روہنگیا مسلمانوں کا تعلق اصل میں بنگلہ دیش سے ہے۔ لیکن دونوں میں سے کوئی بھی ملک انہیں اپنا شہری تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔