ہیومن رائٹس واچ نے مزید کہا کہ ہزاروں روہنگیا افراد خصوصاً کیمپوں سے باہر مقیم غیر اندارج شدہ پناہ گزینوں کو ملنے والی امداد بھی ناکافی ہے۔ تنظیم کے مطابق برما کی حکومت مختلف امدادی ایجنسیوں کی طرف سے مدد فراہم کرنے کی کوششوں میں بھی رکاوٹ ڈال رہی ہے۔
انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم نے متنبہ کیا ہے کہ اگر برما نے روہنگیا مسلمان مہاجرین کی آباد کاری کے لیے اقدامات نہ کیے تو ملک میں وسیع مذہبی تقسیم کا خطرہ ہے۔
گزشتہ برس مغربی ریاست راکین میں مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں میں ہونے والے ہلاکت خیز فسادات کے نتیجے میں تقریباً ایک لاکھ روہنگیا نسل کے مسلمان بے گھر ہوئے گئے۔ مہینوں گزر جانے کے باوجود بھی یہ لوگ پناہ گزین کیمپوں میں ابتر حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ دیگر آبادی سے کٹے ہوئے ان لوگوں کو کیمپوں سے باہر بھی جانے نہیں دیا جاتا۔
بدھ کو اپنی ایک رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے کا کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے بے گھر روہنگیا افراد کی نو آباد کاری میں ناکامی سے ’’ آبادی میں مذہبی تقسیم سے متعلق خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے۔‘‘ ریاست راکین کے مرکزی شہر ستتوی میں تنظیم کے مطابق مسلمان آبادی اب ’’مکمل طور پر علیحدہ ہوچکی ہے‘‘۔
برما میں حکام نے اس تفریق کو عارضی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد ایک ایسے علاقے میں جہاں مسلمانوں کے خلاف تعصب کوئی غیر معمولی بات نہیں، بدامنی کو مزید پھیلنے سے روکنا ہے۔
لیکن ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ برما نے مصالحتی منصوبوں یا پناہ گزینوں کو دوبارہ متحد کرنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے ہیں۔
نیویارک میں قائم اس تنظیم نے حکومت پر اس ضمن میں فوری اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ آئندہ بارشوں کے موسم میں ان کیمپوں میں ’’انسانی المیہ‘‘ پیش آ سکتا ہے۔ تنظیم کے مطابق یہ کیمپ زیادہ تر زیریں علاقوں میں واقع ہیں اور سیلاب کی صورت میں یہاں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں پھوٹ سکتی ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے مزید کہا کہ ہزاروں روہنگیا افراد خصوصاً کیمپوں سے باہر مقیم غیر اندارج شدہ پناہ گزینوں کو ملنے والی امداد بھی ناکافی ہے۔ تنظیم کے مطابق برما کی حکومت مختلف امدادی ایجنسیوں کی طرف سے مدد فراہم کرنے کی کوششوں میں بھی رکاوٹ ڈال رہی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ روہنگیا قوم سے تعلق رکھنے والے دنیا کی اقلیتوں میں سب سے زیادہ امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ برما انھیں اپنی شہریت دینے کے علاوہ بنیادی حقوق فراہم کرنے سے انکار کر چکا ہے اور یہاں انھیں بنگلہ دیش سے آئے غیر قانونی تارکین وطن تصور کیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس جب راکین ریاست میں یہ نسلی فسادات شروع ہوئے تو برما کی سکیورٹی فورسز نے اسے روکنے کے لیے نہ صرف یہ کہ بہت کم کوشش کی بلکہ مسلمانوں کے خلاف بعض واقعات میں حصہ بھی لیا۔
گزشتہ ہفتے بھی میختیلا میں ایک بار پھر یہ فسادات شروع ہوئے جو کہ بعد ازاں دیگر علاقوں تک پھیل گئے اور ان میں اب تک 40 افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہوچکے ہیں۔
گزشتہ برس مغربی ریاست راکین میں مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں میں ہونے والے ہلاکت خیز فسادات کے نتیجے میں تقریباً ایک لاکھ روہنگیا نسل کے مسلمان بے گھر ہوئے گئے۔ مہینوں گزر جانے کے باوجود بھی یہ لوگ پناہ گزین کیمپوں میں ابتر حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ دیگر آبادی سے کٹے ہوئے ان لوگوں کو کیمپوں سے باہر بھی جانے نہیں دیا جاتا۔
بدھ کو اپنی ایک رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے کا کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے بے گھر روہنگیا افراد کی نو آباد کاری میں ناکامی سے ’’ آبادی میں مذہبی تقسیم سے متعلق خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے۔‘‘ ریاست راکین کے مرکزی شہر ستتوی میں تنظیم کے مطابق مسلمان آبادی اب ’’مکمل طور پر علیحدہ ہوچکی ہے‘‘۔
برما میں حکام نے اس تفریق کو عارضی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد ایک ایسے علاقے میں جہاں مسلمانوں کے خلاف تعصب کوئی غیر معمولی بات نہیں، بدامنی کو مزید پھیلنے سے روکنا ہے۔
لیکن ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ برما نے مصالحتی منصوبوں یا پناہ گزینوں کو دوبارہ متحد کرنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے ہیں۔
نیویارک میں قائم اس تنظیم نے حکومت پر اس ضمن میں فوری اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ آئندہ بارشوں کے موسم میں ان کیمپوں میں ’’انسانی المیہ‘‘ پیش آ سکتا ہے۔ تنظیم کے مطابق یہ کیمپ زیادہ تر زیریں علاقوں میں واقع ہیں اور سیلاب کی صورت میں یہاں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں پھوٹ سکتی ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے مزید کہا کہ ہزاروں روہنگیا افراد خصوصاً کیمپوں سے باہر مقیم غیر اندارج شدہ پناہ گزینوں کو ملنے والی امداد بھی ناکافی ہے۔ تنظیم کے مطابق برما کی حکومت مختلف امدادی ایجنسیوں کی طرف سے مدد فراہم کرنے کی کوششوں میں بھی رکاوٹ ڈال رہی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ روہنگیا قوم سے تعلق رکھنے والے دنیا کی اقلیتوں میں سب سے زیادہ امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ برما انھیں اپنی شہریت دینے کے علاوہ بنیادی حقوق فراہم کرنے سے انکار کر چکا ہے اور یہاں انھیں بنگلہ دیش سے آئے غیر قانونی تارکین وطن تصور کیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس جب راکین ریاست میں یہ نسلی فسادات شروع ہوئے تو برما کی سکیورٹی فورسز نے اسے روکنے کے لیے نہ صرف یہ کہ بہت کم کوشش کی بلکہ مسلمانوں کے خلاف بعض واقعات میں حصہ بھی لیا۔
گزشتہ ہفتے بھی میختیلا میں ایک بار پھر یہ فسادات شروع ہوئے جو کہ بعد ازاں دیگر علاقوں تک پھیل گئے اور ان میں اب تک 40 افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہوچکے ہیں۔