شمال مغربی علاقے میں واقع کنبالو قصبے کے ایک عدالتی اہل کار نے بتایا ہے کہ ’سان مِن او‘ کو مقدمے کی فوری سماعت کرنے والی ایک عدالت نے سزا سنائی، جِس میں اُنھوں نے اپنے جرم کا اقرار کیا
واشنگٹن —
برما کی عدالت نے ایک مسلمان نوجوان کو ایک بودھ خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی اور زدو کوب کے الزامات پر سات برس کی متنازعہ قید کی سزا سنائی ہے، جس کے باعث مسلمانوں کے خلاف فسادات چھڑ گئے تھے۔
شمال مغربی علاقے میں واقع کنبالو قصبے کے ایک عدالتی اہل کار نے بتایا ہے کہ ’سان مِن او‘ کو مقدمے کی فوری سماعت کرنے والی ایک عدالت نے سزا سنائی، جِس میں اُنھوں نے اپنے جرم کا اقرار کیا۔
تاہم، مقدمے میں اُن کے وکیل صفائی کی عدم موجودگی پر نکتہ چینی کی جارہی ہے۔
برما کے قانونی ماہر، رابرٹ سان آنگ نے ’وائس آف امریکہ‘ کی برمی سروس کو بتایا کہ زنا بالجبر کے الزام پر پانچ برس اور زدو کوب پر دو سال کی سزا کے مرغوبے کو ’نامناسب‘ نتایا گیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ جب ملزم پر جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا گیا تو پھر زدو کوب کا الزام معطل کیا جانا چاہیئے تھا۔
چوبیس اگست کو جب لوگوں کا ہجوم ایک پولیس تھانے کے ارد گرد جمع تھا، تشدد کے واقعات اُس وقت بھڑک اٹھے جب یہ مطالبہ پیش ہوا کہ مشتبہ شخص کو بھیڑ کے حوالے کیا جائے۔
جب ایسا نہیں کیا گیا، تو بپھرے ہجوم نے قصبے کے مسلمان علاقے کی دکانوں اور گھروں کو نذرِ آتش کردیا۔
برما کے بودھوں اور مسلمانوں کے درمیان گذشتہ برس سے جاری فسادات میں تناؤ بڑھتا چلا گیا، جس میں 200سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ تشدد کے اِن واقعات کی ابتدا مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے عناصر کی طرف سے بودھ مت کی ایک خاتون کے ساتھ مبینہ زیادتی کا واقعہ تھا، جس کے بدلے کے طور پر بودھوں پر مشتمل ایک ہجوم نے 10مسلمانوں کو ہلاک کردیا۔
شمال مغربی علاقے میں واقع کنبالو قصبے کے ایک عدالتی اہل کار نے بتایا ہے کہ ’سان مِن او‘ کو مقدمے کی فوری سماعت کرنے والی ایک عدالت نے سزا سنائی، جِس میں اُنھوں نے اپنے جرم کا اقرار کیا۔
تاہم، مقدمے میں اُن کے وکیل صفائی کی عدم موجودگی پر نکتہ چینی کی جارہی ہے۔
برما کے قانونی ماہر، رابرٹ سان آنگ نے ’وائس آف امریکہ‘ کی برمی سروس کو بتایا کہ زنا بالجبر کے الزام پر پانچ برس اور زدو کوب پر دو سال کی سزا کے مرغوبے کو ’نامناسب‘ نتایا گیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ جب ملزم پر جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا گیا تو پھر زدو کوب کا الزام معطل کیا جانا چاہیئے تھا۔
چوبیس اگست کو جب لوگوں کا ہجوم ایک پولیس تھانے کے ارد گرد جمع تھا، تشدد کے واقعات اُس وقت بھڑک اٹھے جب یہ مطالبہ پیش ہوا کہ مشتبہ شخص کو بھیڑ کے حوالے کیا جائے۔
جب ایسا نہیں کیا گیا، تو بپھرے ہجوم نے قصبے کے مسلمان علاقے کی دکانوں اور گھروں کو نذرِ آتش کردیا۔
برما کے بودھوں اور مسلمانوں کے درمیان گذشتہ برس سے جاری فسادات میں تناؤ بڑھتا چلا گیا، جس میں 200سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ تشدد کے اِن واقعات کی ابتدا مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے عناصر کی طرف سے بودھ مت کی ایک خاتون کے ساتھ مبینہ زیادتی کا واقعہ تھا، جس کے بدلے کے طور پر بودھوں پر مشتمل ایک ہجوم نے 10مسلمانوں کو ہلاک کردیا۔