برما کے صدر تھیئن شین کی طرف سے رواں سال اواخر تک تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کے عزم کے اظہار کے چند دن بعد ہی منگل کو انھوں نے 70 سیاسی قیدیوں کی سزاؤں کو معاف کر دیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ معاف کیے جانے والے بعض قیدیوں کو منگل کو پہلے ہی برما کی مختلف جیلوں سے رہا کر دیا گیا۔ ان کی شناخت کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
گزشتہ ہفتے صدر شین نے دورہ لندن کے دوران اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ تمام سیاسی قیدیوں کو رواں سے اواخر تک رہا کر دیا جائے گا۔ بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ایک عرصے سے ان رہائیوں کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔
منگل کو سامنے آنے والے اس اعلان سے قبل سرگرم کارکنوں کے مطابق ایک سو سے دو سو کے درمیان سیاسی قیدی برما کی مختلف جیلوں میں بند ہیں۔
برما میں فوجی اقتدار کے دوران سیاسی مخالفین کو قید کیا جانا ایک اہم معاملہ رہا ہے لیکن 2011ء میں سول حکومت کے قیام کے بعد مختلف اصلاحات کے تحت سیاسی قیدیوں کی رہائی بھی دیکھنے میں آئی۔
ان اصلاحات کے تحت سینکڑوں سیاسی قیدیوں کو رہا گیا۔ ذرائع ابلاغ پر قدغنوں میں کمی کی گئی اور حزب مخالف کی رہنما آنگ سان سوچی کو پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کی دی گئی۔
ان اصلاحات کو مغربی ملکوں نے سراہا اور ان میں سے اکثر نے دہائیوں سے اس ملک پر عائد اقتصادی پابندیوں کو نرم کر دیا۔
لیکن بعض سرگرم کارکنوں کو کہنا ہے کہ صدر تھیئن شین بعض اصلاحات پر عمل درآمد کرنے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔ ان کے بقول صدر نے تمام سیاسی قیدیوں کو فوری طور پر رہا کرنے سے انکار کیا ہے کیونکہ وہ اس معاملے کو مغربی قوتوں سے ساتھ سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ اس بات کا تعین کرنے میں کہ کون سیاسی قیدی ہے اور کون اصل جرائم کی سزا کاٹ رہا ہے، اسے وقت درکار ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ معاف کیے جانے والے بعض قیدیوں کو منگل کو پہلے ہی برما کی مختلف جیلوں سے رہا کر دیا گیا۔ ان کی شناخت کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
گزشتہ ہفتے صدر شین نے دورہ لندن کے دوران اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ تمام سیاسی قیدیوں کو رواں سے اواخر تک رہا کر دیا جائے گا۔ بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ایک عرصے سے ان رہائیوں کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔
منگل کو سامنے آنے والے اس اعلان سے قبل سرگرم کارکنوں کے مطابق ایک سو سے دو سو کے درمیان سیاسی قیدی برما کی مختلف جیلوں میں بند ہیں۔
برما میں فوجی اقتدار کے دوران سیاسی مخالفین کو قید کیا جانا ایک اہم معاملہ رہا ہے لیکن 2011ء میں سول حکومت کے قیام کے بعد مختلف اصلاحات کے تحت سیاسی قیدیوں کی رہائی بھی دیکھنے میں آئی۔
ان اصلاحات کے تحت سینکڑوں سیاسی قیدیوں کو رہا گیا۔ ذرائع ابلاغ پر قدغنوں میں کمی کی گئی اور حزب مخالف کی رہنما آنگ سان سوچی کو پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کی دی گئی۔
ان اصلاحات کو مغربی ملکوں نے سراہا اور ان میں سے اکثر نے دہائیوں سے اس ملک پر عائد اقتصادی پابندیوں کو نرم کر دیا۔
لیکن بعض سرگرم کارکنوں کو کہنا ہے کہ صدر تھیئن شین بعض اصلاحات پر عمل درآمد کرنے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔ ان کے بقول صدر نے تمام سیاسی قیدیوں کو فوری طور پر رہا کرنے سے انکار کیا ہے کیونکہ وہ اس معاملے کو مغربی قوتوں سے ساتھ سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ اس بات کا تعین کرنے میں کہ کون سیاسی قیدی ہے اور کون اصل جرائم کی سزا کاٹ رہا ہے، اسے وقت درکار ہے۔