سرکاری میڈیا نے منگل کے روز کہا ہے کہ فسادات والے علاقوں سے مزید آٹھ لاشیں برآمد ہونے کے بعد اب تک ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 40 ہوگئی ہے
برما میں شروع ہونے والے نسلی فسادات منگل کو ملک کے مرکز تک پہنچ گئے ہیں اور حکام کے مطابق دو مساجد سمیت درجنوں گھروں کو اس دوران نذر آتش کردیا گیا ہے۔
پولیس اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ رنگون کے شمال میں پیگو کے علاقے میں رات بھر سے جاری فسادات میں تاحال کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
میختیلا کے علاقے میں یہ فسادات گزشتہ ہفتے شروع ہوئے تھے۔ یہ لہر تاحال ملک کے بڑے شہر رنگون تک نہیں پہنچی ہے۔ لیکن، شہر کی فضا کشیدہ ہے اور ممکنہ جھڑپوں کی افواہوں کے تناظرمیں سر شام ہی اکثر بازاروں کو بند کر دینے کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔
سرکاری میڈیا نے منگل کے روز کہا ہے کہ فسادات والے علاقوں سے مزید آٹھ لاشیں برآمد ہونے کے بعد اب تک ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 40 ہوگئی ہے۔
ایک روز قبل صدر تھیئن شین کی حکومت نے تشدد کو روکنے کے لیے ہر قسم کے اقدامات کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے میختیلا میں بے گھر ہونے والے دس ہزار افراد کی دوبارہ آباد کاری کا بھی وعدہ کیا تھا۔ ان بے گھر افراد کی اکثریت مسلمان ہے۔
برما میں گزشتہ برس مغربی ریاست راکین میں بدھ مت کے پیروکاروں اور مسلمانوں کے درمیان ایسے ہی شدید نسلی فسادات دیکھنے میں آئے تھے جن میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک اور ایک لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔
لیکن مبصرین تشدد کی اس تازہ لہر کے بارے میں زیادہ متفکر ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان دونوں قوموں کے درمیان کشیدگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ توقع سے زیادہ پھیل سکتی ہے۔
ملک میں حکومت کی طرف سے کی جانے والی سیاسی اصلاحات کے لیے خطرہ تصور کیے جانے والے اس تشدد کے خاتمے کے لیے امریکہ اور اقوام متحدہ نے بھی مطالبہ کیا ہے۔
پولیس اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ رنگون کے شمال میں پیگو کے علاقے میں رات بھر سے جاری فسادات میں تاحال کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
میختیلا کے علاقے میں یہ فسادات گزشتہ ہفتے شروع ہوئے تھے۔ یہ لہر تاحال ملک کے بڑے شہر رنگون تک نہیں پہنچی ہے۔ لیکن، شہر کی فضا کشیدہ ہے اور ممکنہ جھڑپوں کی افواہوں کے تناظرمیں سر شام ہی اکثر بازاروں کو بند کر دینے کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔
سرکاری میڈیا نے منگل کے روز کہا ہے کہ فسادات والے علاقوں سے مزید آٹھ لاشیں برآمد ہونے کے بعد اب تک ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 40 ہوگئی ہے۔
ایک روز قبل صدر تھیئن شین کی حکومت نے تشدد کو روکنے کے لیے ہر قسم کے اقدامات کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے میختیلا میں بے گھر ہونے والے دس ہزار افراد کی دوبارہ آباد کاری کا بھی وعدہ کیا تھا۔ ان بے گھر افراد کی اکثریت مسلمان ہے۔
برما میں گزشتہ برس مغربی ریاست راکین میں بدھ مت کے پیروکاروں اور مسلمانوں کے درمیان ایسے ہی شدید نسلی فسادات دیکھنے میں آئے تھے جن میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک اور ایک لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔
لیکن مبصرین تشدد کی اس تازہ لہر کے بارے میں زیادہ متفکر ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان دونوں قوموں کے درمیان کشیدگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ توقع سے زیادہ پھیل سکتی ہے۔
ملک میں حکومت کی طرف سے کی جانے والی سیاسی اصلاحات کے لیے خطرہ تصور کیے جانے والے اس تشدد کے خاتمے کے لیے امریکہ اور اقوام متحدہ نے بھی مطالبہ کیا ہے۔