حملے منگل کو ایک سڑک سے گزرنے والی مسلمان خاتون کے ایک بدھ بھکشو سے ٹکرانے کے بعد شروع ہوئے تھے جس پر مقامی بدھ آبادی اشتعال میں آگئی تھی۔
واشنگٹن —
برما میں حکام نے کہا ہے کہ ملک میں مسلمانوں اور ان کی املاک پر ہونے والے تازہ حملوں میں ایک شخص ہلاک اور 10 زخمی ہوگئے ہیں۔
پولیس کے مطابق ملک کے اقتصادی مرکز اور سب سے بڑے شہر رنگون سے 100 کلومیٹر شمال میں واقع اوکان نامی ایک قصبے میں منگل کو ہونے والے فسادات میں زخمی ہونے والا ایک شخص بدھ کو چل بسا۔
مقامی حکام اور رہائشیوں کے مطابق مختلف ہتھیاروں سے مسلح 300 بدھ باشندوں نے منگل کی شام قصبے میں مسجدوں اور مسلمانوں کی دیگر املاک پر حملے کیے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ حملوں میں کم ا ز کم 157 گھر تباہ ہوئے ہیں جب کہ دو مساجد کو بھی بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کو روکنے کے لیے قصبے کی پولیس نے کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔
خیال رہے کہ ماضی میں بھی برما کی پولیس اور فوج پر فسادیوں کا ساتھ دینے اور مسلمان اقلیت کو ان کے حملوں سے نہ بچانے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
رنگون کے ڈپٹی پولیس کمشنر تھیٹ لوئن نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے گفتگو میں دعویٰ کیا ہے کہ فسادات کے بعد علاقے میں سیکڑوں پولیس اہلکار اور فوجی تعینات کردیے گئے ہیں جس کےبعد تشدد کا کوئی نیا واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔
پولیس کمشنر کے مطابق حکام نے مجمع کو حملوں پر اکسانے، لوٹ مار اور دنگا کرنے کے الزامات کے تحت 18 افراد کو حراست میں بھی لے لیا ہے۔
پولیس افسر نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ حملوں سے بچنے کے لیے قصبے کے سیکڑوں مسلمان قریبی جنگل میں روپوش ہوگئے تھے جنہیں، ان کے بقول، اب کوئی خطرہ نہیں اور وہ اپنے گھروں کو واپس آسکتے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق تازہ حملے منگل کو ایک سڑک سے گزرنے والی مسلمان خاتون کے ایک بدھ بھکشو سے ٹکرانے کے بعد شروع ہوائے تھے جس پر مقامی بدھ آبادی اشتعال میں آگئی تھی۔
پولیس کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ واقعے کے بعد لاٹھیوں اور دیگر اوزاروں سے مسلح گروہوں نے ایک مقامی مسجد اور گھروں میں توڑ پھوڑ کی تھی اور مسلمانوں کی کئی درجن دکانیں لوٹ لی تھیں۔
خیال رہے کہ مسلمان برما کی کل آبادی کا صرف پانچ فی صد ہیں۔ ملک میں پانچ دہائیوں تک جاری رہنےو الے فوجی آمریت کے خاتمے کے بعد مارچ 2011ء میں برسرِ اقتدار آنے والی سول حکومت کے بعد سے اب تک ملک میں کئی فرقہ ورانہ فسادات ہوچکے ہیں جن میں مسلمان اقلیت نشانہ بنتی آئی ہے۔
گزشتہ ماہ بھی برما کے وسطی شہر میکتھیلا میں فسادات پھوٹ پڑے تھے جن میں 44 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ فسادات کے باعث 13 ہزار سے زائد لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ علاقوں میں پناہ حاصل کرنا پڑی تھی۔
پولیس کے مطابق ملک کے اقتصادی مرکز اور سب سے بڑے شہر رنگون سے 100 کلومیٹر شمال میں واقع اوکان نامی ایک قصبے میں منگل کو ہونے والے فسادات میں زخمی ہونے والا ایک شخص بدھ کو چل بسا۔
مقامی حکام اور رہائشیوں کے مطابق مختلف ہتھیاروں سے مسلح 300 بدھ باشندوں نے منگل کی شام قصبے میں مسجدوں اور مسلمانوں کی دیگر املاک پر حملے کیے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ حملوں میں کم ا ز کم 157 گھر تباہ ہوئے ہیں جب کہ دو مساجد کو بھی بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کو روکنے کے لیے قصبے کی پولیس نے کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔
خیال رہے کہ ماضی میں بھی برما کی پولیس اور فوج پر فسادیوں کا ساتھ دینے اور مسلمان اقلیت کو ان کے حملوں سے نہ بچانے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
رنگون کے ڈپٹی پولیس کمشنر تھیٹ لوئن نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے گفتگو میں دعویٰ کیا ہے کہ فسادات کے بعد علاقے میں سیکڑوں پولیس اہلکار اور فوجی تعینات کردیے گئے ہیں جس کےبعد تشدد کا کوئی نیا واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔
پولیس کمشنر کے مطابق حکام نے مجمع کو حملوں پر اکسانے، لوٹ مار اور دنگا کرنے کے الزامات کے تحت 18 افراد کو حراست میں بھی لے لیا ہے۔
پولیس افسر نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ حملوں سے بچنے کے لیے قصبے کے سیکڑوں مسلمان قریبی جنگل میں روپوش ہوگئے تھے جنہیں، ان کے بقول، اب کوئی خطرہ نہیں اور وہ اپنے گھروں کو واپس آسکتے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق تازہ حملے منگل کو ایک سڑک سے گزرنے والی مسلمان خاتون کے ایک بدھ بھکشو سے ٹکرانے کے بعد شروع ہوائے تھے جس پر مقامی بدھ آبادی اشتعال میں آگئی تھی۔
پولیس کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ واقعے کے بعد لاٹھیوں اور دیگر اوزاروں سے مسلح گروہوں نے ایک مقامی مسجد اور گھروں میں توڑ پھوڑ کی تھی اور مسلمانوں کی کئی درجن دکانیں لوٹ لی تھیں۔
خیال رہے کہ مسلمان برما کی کل آبادی کا صرف پانچ فی صد ہیں۔ ملک میں پانچ دہائیوں تک جاری رہنےو الے فوجی آمریت کے خاتمے کے بعد مارچ 2011ء میں برسرِ اقتدار آنے والی سول حکومت کے بعد سے اب تک ملک میں کئی فرقہ ورانہ فسادات ہوچکے ہیں جن میں مسلمان اقلیت نشانہ بنتی آئی ہے۔
گزشتہ ماہ بھی برما کے وسطی شہر میکتھیلا میں فسادات پھوٹ پڑے تھے جن میں 44 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ فسادات کے باعث 13 ہزار سے زائد لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ علاقوں میں پناہ حاصل کرنا پڑی تھی۔