پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو ہٹا کر وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر کو خزانہ کی وزارت بھی سونپ دی ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حفیظ شیخ کو ہٹانے کی وجہ اسٹیٹ بینک سے متعلق حالیہ قانون سازی تھی جب کہ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ کابینہ میں تبدیلیوں سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ حکومتی ٹیم میں نتائج دینے کی صلاحیت نہیں ہے۔
خیال رہے کہ حماد اظہر موجودہ حکومت کے تیسرے وزیرِ خزانہ ہوں گے اس سے قبل وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر بھی وزارتِ خزانہ کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔
وزیرِ اعظم نے اپریل 2019 میں اسد عمرسے وزارتِ خزانہ کا قلمدان واپس لے کر حفیظ شیخ کو مشیر خزانہ مقرر کر دیا تھا۔
البتہ، گزشتہ برس دسمبر میں لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ وزیراعظم کے معاونین اور مشیران کے پاس کابینہ کمیٹیوں کے اجلاس کی سربراہی کا اختیار نہیں۔ جس کے بعد رواں ماہ انہیں سینیٹ کا الیکشن لڑوایا گیا لیکن سینیٹ کی سیٹ ہارنے کے بعد اب وزیرِاعظم نے ان سے خزانہ کا قلمدان واپس لے لیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حفیظ شیخ کو کیوں فارغ کیا گیا؟
وزیر برائے اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے ایک بیان میں کہا کہ مہنگائی بڑھنے پر حفیظ شیخ کو عہدے سے ہٹایا گیا، تاہم بعد میں انہوں نے حفیظ شیخ کی تعریفوں پر مبنی ایک ٹوئٹ بھی کی۔
ماہرِ معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ افراطِ زر کنٹرول کرنا تو اسٹیٹ بنک کی ذمے داری ہے۔ لہذٰا وزیرِ خزانہ کا کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں اگر یہ وجہ ہے تو سب سے پہلے گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کو ہٹایا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر اشفاق حسن نے دعوی کیا کہ حفیظ شیخ وزیرِاعظم عمران خان کو بہت سے معاملات میں غلط بریفنگ دیتے رہے، حالیہ دنوں میں اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے حوالے سے بھی انہوں نے وزیرِاعظم اور کابینہ کو مبینہ طور پر غلط بریف کیا تھا۔
نئے وزیر خزانہ کے چیلنجز کے بارے میں انہوں نے کہا کہ حماد اظہر اپنی تعلیم اور تجربے کے لحاظ سے بیرسٹر ہیں اور میری دعا ہے کہ اس وقت جس قدر چیلنجز ہیں وہ ان پر پورا اتریں لیکن اُن کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔
تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ گزشتہ سال مئی میں افراطِ زر کی شرح 12 فی صد تک پہنچ گئی تھی اور اس کے بعد اس میں لگاتار کمی آئی ہے، یعنی مہنگائی میں کمی آئی ہے، اگر یہ وجہ ہے تو حفیظ شیخ کو ہٹانے کی وجہ مہنگائی نہیں کچھ اور ہے۔
معاشی ٹیم کی تبدیلی سے مارکیٹ پر کیا اثر پڑے گا؟
معاشی ٹیم کی تبدیلی سے کیا نتائج سامنے آتے ہیں اس بارے میں تجزیہ کار خرم شہزاد کہتے ہیں کہ وزیرخزانہ اور معاشی ٹیم کی بار بار تبدیلی سے سرمایہ کاروں کا اعتماد خراب ہوتا ہے۔اگر کورٹیم مستقل نہ ہو تو ایک غیریقینی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی بار بار تبدیلیوں سے لگتا ہے کہ حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے کہ کس کو کون سی ذمے داری دینی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرمایہ کار مستقل مزاجی چاہتا ہے اور اعتماد چاہتا ہے لیکن جب اسے ٹیم میں مستقل مزاجی نظر نہیں آتی تو مارکیٹ میں وہ سرمایہ لگانے سے گریز کرتا ہے۔
خرام شہزاد کہتے ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف کا پروگرام لے چکا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یورو بانڈز اور سکوک بانڈز جاری کرنے جا رہا ہے جب کہ آئندہ دو سے تین ماہ میں نیا بجٹ پیش کرنا ہے۔ ایسے میں جب معاشی ٹیم تبدیل کی جائے تو سرمایہ کار کو اچھا پیغام نہیں جاتا۔
دوسری طرف فرخ سلیم کہتے ہیں کہ حکومت اب تک کسی طور اقتصادی اور معاشی مسائل کے حوالے سے بھی تیار نظر نہیں آ رہی۔ وزرا کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اہم عہدوں پر تعینات افراد کی تبدیلیاں بھی کارگر ثابت نہیں ہو رہیں۔
انہوں نے کہا کہ صرف وزیرِ خزانہ ہی تین بار تبدیل نہیں ہوئے بلکہ چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) چار مرتبہ، سرمایہ کاری بورڈ کے سربراہ تین مرتبہ، مختلف وزارتوں کے سیکرٹریز کئی کئی مرتبہ تبدیل ہو چکے ہیں۔
وزیر خزانہ کی تبدیل کرنے کے علاوہ ، وزیرِاعظم عمران خان نے سابق چیئرمین کے الیکٹرک تابش گوہر کو معاون خصوصی برائے پیٹرولیم مقرر کردیا ہے۔
تابش گوہر کو پچھلے سال بھی وزیرِاعظم کا معاونِ خصوصی برائے توانائی مقرر کیا گیا تھا تاہم رواں سال جنوری میں وہ مستعفی ہو گئے تھے۔