کیلی فورنیا میں 2018ء ایک تاریخ ساز سال ثابت ہوا جس دوران پہلا مسلمان جج تعینات ہوا، ایسے میں جب شمالی امریکہ میں مسلمان مخالف جذبات بڑھ رہے تھے۔
’پی بی ایس‘ کی ایک خبر کے مطابق، امریکی مسلمان، حلیم دھنی دینا کیلی فورنیا ریاست کی ’کورٹس آف اپیل‘ کے جج کے رتبے پر فائز ہوئے۔ یوں، اسلام کا پیروکار اس پیسیفک ریاست کا انتہائی سینئر جج مقرر ہوا۔
وہ مسلمان ہیں، جنھوں نے امریکہ کے کمرہ ٴ عدالت کی سربراہی کا غیرمعمولی اعزاز حاصل کیا۔ وہ ملک کے اُن چند ججوں میں شامل ہیں جو اس مقام تک پہنچے۔
بقول اُن کے ’’مجھے متعصبانہ رائے زنی سے نمٹنا خوب آتا ہے۔ غور فرمائیے، اگر کوئی مسلمان جج موجود نہ ہو تو کس قسم کی بھیانک باتیں ہو سکتی ہیں۔ جس بات کی مجھے امید ہے وہ یہ ہے کہ مجھے جواب مل گیا ہے، جو اِس قسم کی سوچ کے ازالے کی مانند ہے‘‘۔
ایک چھوٹی سی تعداد ایسے لوگوں کی ضرور ہے جو دھنی دینا پر اُن کے مذہب کی بنا پر نکتہ چینی اور تنقید کرتے ہیں؛ اور ’’جمہوریت میں اُن کے کردار پر‘‘ سوال اٹھاتے ہیں۔
تاہم، جواب میں، وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’مختصراً یہ کہ اس قسم کا اختلاف رائے جمہوری اقدار کے لیے خاصی اہمیت رکھتا ہے‘‘۔
وہ شکاگو کے باسی ہیں۔ وہ بھارتی گجراتی گھرانے میں پیدا ہوئے، جنھوں نے امریکہ آنے سے قبل مشرقی افریقہ میں سکونت اختیار کی۔ ایک والد کی حیثیت سے، دھنی دینا اختتامِ ہفتہ کے دِن اپنے بچوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ لیکن ہفتے کے عام دنوں میں جج کے طور پر دیگر لوگوں اور خاندانوں کے رہن سہن میں وہ بڑے اختیارات کے مالک ہوتے ہیں۔
اپنے مسلمان ساتھی کے لیے، جج اینڈریو کِم نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’اُن کے ساتھ کیسوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے، یہ راز کھلا کہ مقدمات چلانے اور دیگر ججوں کے فیصلوں کی مثالیں پیش کرنے کی صلاحیت کے اعتبار سے وہ مجھ سے کئی نوری سال آگے ہیں‘‘۔
خبر میں بتایا گیا ہے کہ سب سے پہلے دھنی دینا کے بارے میں رپورٹ ’ایم وی مسلم ڈاٹ کام‘ نے شائع کی تھی۔