اکثر ممالک کی طرح امریکہ میں چینی ریستوان کثرت سے دکھائی دیتے ہیں اور چینی ڈشیں امریکیوں میں بھی خاصی مقبول ہیں ۔ لیکن امریکی ریاست کیلی فورنیا میں لوگ اب چین کی مشہور ڈش شارک مچھلی کے پروں یا فن کا بنا ہوا سوپ نہیں پی سکیں گے۔ کیونکہ حال ہی میں ریاستی حکام نے شارک مچھلی کے پروں کی خرید و فروخت اور ملکیت پر پابندی لگادی ہے۔ یہ قانون دنیا بھر شارک مچھلیوں کی نسل کو درپیش خطرے سے بچانے کی مہم کا حصہ ہے۔ جب کہ کئی لوگ اس قانون پر سوال اٹھارہے ہیں۔
شارک مچھلی کے پروں سے بنا سوپ چین کی ایک مشہور ڈش ہے جس کی تاریخ بھی صدیوں پرانی ہے۔ حالیہ دنوں میں شارک مچھلی کا سوپ متمول چینیوں میں بہت مقبول ہوا ہے۔ لیکن ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ہیل بائے دا بے کی سارہ سکیچ کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے شارک مچھلیوں کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ہر سال تقریبا 7 کروڑ 30 لاکھ مچھلیاں اسی وجہ سے ماری جاتی ہیں۔
سکیچ کا کہنا ہے کہ اس کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ عام طور پر مچھیرے شارک کوپکڑ کر اس کے فن کاٹ لیتے ہیں اور پھر مچھلی کو واپس سمندر میں مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
مچھلیوں کے ایک ماہی خانے سے منسلک باربرا لانگ کہتی ہیں کہ اس سے نہ صرف شارک مچھلی کی تعداد بلکہ سمندر ی حیات کو بھی خطرات درپیش ہیں۔ ان کا کہناہے کہ شارک مچھلی ایک شکاری مچھلی ہے جو سمندر کے ٕماحولیاتی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت اہم ہے۔
جبکہ شنگھائی میں چین کے باسکٹ بال سٹار یاؤ منگ اور برطانوی بزنس مین رچرڈ برینسن بھی شارک مچھلیوں کے پروں کے سوپ پر چین میں پابندی کی مہم چلا رہے ہیں۔ امریکہ میں قانونی طور پر شارک مچھلیوں کو پروں کے بغیر ساحل پر لانا ممنوع ہے۔ جبکہ کیلی فورینا سمیت چارامریکی ریاستوں اور ساحلی جزائر میں شارک مچھلیوں کے پروں کی خرید و فروخت ممنوع قرار دے دی گئی ہے،جس کی قیمت تقریبا 700 ڈالر فی کلوگرام تک ہے۔
سارہ کہتی ہیں کہ شارک مچھلی کے فن ہی اس کی اتنی بڑی مارکیٹ کی وجہ ہیں۔ امریکہ میں آنے والے 85 فیصد شارک فن کیلی فورنیا کے راستے آتے ہیں۔
لیکن کیلی فورنیا میں اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ امریکہ میں چینیوں کے ساتھ زیادتی ہے کیونکہ یہ قانون شارک مچھلی پر نہیں بلکہ صرف شارک کے پروں کی خرید و فروخت پر پابند ی لگاتا ہے ۔ کیلی فورنیا کے سینیٹر ٹیڈ لو نے اس پابندی کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ آپ شارک مچھلی کو گوشت اور دوسری چیزوں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں لیکن ایک چینی ریستوران کو اس کی اجازت نہیں کہ وہ ہزاروں اقسام کی شارک مچھلیوں میں ، جن کی نسل کوا کوئی خطرہ نہیں ، کچھ کے پر اتار سکیں ۔ میرے خیال میں یہ غلط اور امتیازی سلوک ہے۔
جبکہ ایشیئن فوڈ ٹریڈ ایسوایشن سے منسلک بیٹی سینگ بھی اس کے خلاف ہیں ۔ ان کا کہناہے کہ اگر مچھیرے اور مچھلی کی انڈسٹری کے منسلک لوگ شارک مچھلیاں پکڑتے ہیں تو انھیں اس کے پر پھینکنے پڑیں گے۔ انھیں یا تو انھیں جانوروں کو کھلانا پڑے گا یا واپس سمندر میں پھینکنا پڑے گا۔ تو یہ الٹ ہو جائے گا۔
جبکہ اس پابندی کے کچھ مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ پوری شارک مچھلی پر پابندی کی مہم چلائیں گے۔ جبکہ کچھ ایسے ہی ارادوں کا اظہار لاطینی امریکہ اور دوسرے ممالک کے نمائندوں نے بھی کیا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں اقوام متحدہ میں ایک قرارداد پر دستخط کئے ہیں ، جس کے تحت شارک مچھلیوں کی علیحدہ سے افزائش کی جگہیں بنائی جانے کی تجویز ہے تاکہ شارک مچھلیوں کے تجارتی شکار کو ختم کیا جاسکے۔