دنیا بھر کے اونٹوں پر بھاری وقت آگیا ہے اور کرہ ارض پرجو جاندار چیز سب سے پہلے عالمی حدت کا براہ راست نشانہ بننے جارہی ہے، وہ ہے اونٹ۔
اس سے قبل عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ کئی برسوں سے اونچے پہاڑوں پر صدیوں سے جمی ہوئی برف پر ہاتھ صاف کررہاہے۔ چاندی جیسی کئی چوٹیاں اب کالی چٹانوں کا منظر پیش کررہی ہیں ، کئی گلیشیئر دنیا سے غائب ہوچکے ہیں اورکئی طرح کی نباتات بھی گلوبل وارمنگ کی لپیٹ میں آرہی ہیں۔ لیکن بڑے جانداروں میں اس کا پہلا ہدف اونٹ ہے۔
یقیناً آپ کے لیے یہ تعجب کی بات ہوگی کیونکہ اونٹ تو ایک صحرائی جانور ہے۔ تیز دھوپ میں اس کی کھال جلتی ہے اور نہ ہی تلوؤں پر تپتی ہوئی ریت کا کوئی اثر ہوتا ہے۔ اسی لیے تو اسے صحرائی جہاز بھی کہاجاتا ہے۔اونٹ کے بارے میں کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ کچھ کھائے پیئے بغیر کئی دن زندہ رہ سکتا ہے۔
پھر سوال یہ ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں ایک دو ڈگری کا اضافہ اونٹ کے لیے اتنا خطرناک کیوں ہوگیا ہے کہ اس کی پوری نسل ہی داؤ پر لگ گئی ہے؟
اس کا جواب دیا ہے آسٹریلوی ماہرین نے۔ ان کا کہناہے کہ اگر اونٹ زندہ رہا تو پھر کرہ ارض پر کوئی اور زندہ نہیں رہے گا۔ کیونکہ عالمی تپش میں اضافے کی اصل جڑ اونٹ ہے۔ وہ بہت زیادہ کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس خارج کرتاہے ۔ جب کہ کرہ ہوائی میں کاربن گیسوں کی مقدار بڑھنے سے عالمی درجہ حرارت بڑھ رہاہے۔
اس سے قبل ماہرین یہ کہہ رہے تھے کہ گلوبل وارمنگ کا اصل سبب حضرت انسان خود ہے۔اور اس کی بنائی ہوئی مشینیں اور آلات بڑی مقدار میں کاربن گیسیں خارج کرکے قدرتی فضائی نظام کو تباہ کررہی ہیں۔
گذشتہ کئی برسوں سے بڑے صنعتی ملک اپنے کارخانوں سے کاربن گیسوں کا اخراج روکنے کے لیے مسلسل کانفرنسیں کررہے ہیں۔ مگر بات آگے نہیں بڑھ رہی کیونکہ کوئی بھی ملک اپنی صنعتوں پر ہاتھ رکھنے کے لیے تیار نہیں ہے اور دوسروں سے ان کے کارخانوں کی قربانی مانگ رہاہے۔
کارخانوں کی اصلاح یا قربانی تو جانے کب ہوگی، تاہم آسٹریلیا نے کہا ہے کہ اس نے کاربن گیسوں کے اخراج پر کنٹرول کے لیے ٹھوس قدم اٹھا تے ہوئے اپنے اونٹوں کی قربانی کا فیصلہ کرلیا ہے۔
گذشتہ ہفتے آسٹریلیاکی پارلیمنٹ نے ایک قانون کی منظوری دی ہے جس میں جنگلی اونٹوں کو مارنے پر انعام کی پیش کش کی گئی ہے۔ اونٹ مارنے کا انعام ہے ’کاربن کریڈٹ‘ ، جو ایک سرٹیفکیٹ کی شکل میں ہوگا۔ جسے ’اونٹ مار خان‘ کارخانہ داروں کو بیچ کر اپنے پیسے کھرے کرسکیں گے۔
’کاربن کریڈٹ‘ بھی بڑے مزے کی چیز ہے جو امریکہ سمیت بعض صنعتی ملکوں میں رائج ہے۔ امریکہ میں کارخانوں کے لیے کاربن گیسوں کے اخراج کی ایک سطح مقرر ہے۔ مقررہ حد سے کم کاربن گیس خارج کرنے والے کارخانہ دار کو بچائی گئی مقدار کا ’کاربن کریڈٹ‘ مل جاتا ہے۔ جسے وہ ان کارخانوں کو بیچ دیتا ہے جو مقررہ حد سے زیادہ گرین ہاؤس گیسیں خارج کرتے ہیں۔ گویا آلودگی بیچی اور خریدی جاتی ہے۔
وکی پیڈیا کے مطابق آسٹریلیا میں جنگلی اونٹوں کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے اور ہر نوسال کے بعد ان کی تعداد دوگنی ہورہی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اونٹ آسٹریلیا کا جانور نہیں ہے۔ اسے 1840ء اور 1907ء کے دوران زیادہ تر بھارت سے مال برداری کے لیے برآمد کیا گیاتھا۔ ان میں راجھستانی نسل کے اونٹ بھی شامل تھے، جسے دنیا کا بہترین اونٹ سمجھا جاتا ہے۔ مگر وقت گذرنے کےساتھ آسٹریلیا میں ان کی نسل اتنی بڑھ گئی کہ وہ جنگلوں میں آوارہ پھرنے لگے۔
دنیا میں آسٹریلیا واحد ایسا ملک ہے جہاں جنگلی اونٹ موجود ہیں۔ سرکاری رپوٹوں کے مطابق جنگی اونٹوں سے ہر سال فصلوں اور املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچ رہاہے۔
ماہرین کا کہناہے کہ ایک اونٹ ہر سال 46 کلوگرام میتھین گیس خارج کرتا ہے۔ یہ مقدار ایک ٹن کاربن گیس سے زیادہ ہے۔
ماحولیات سے متعلق آسٹریلیا کے اداروں کو توقع ہے کہ جنگلی اونٹوں کو مارنے سے نہ صرف کاربن گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی ہوگی بلکہ فصلوں کو بھی نقصان سے بچایا جاسکے گا۔
انٹرنیٹ پر موجود رپورٹس کے مطابق کئی شکاریوں نے اونٹوں کا شکار کھیلنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں اور وہ گروپوں کی صورت میں جنگلوں میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کچھ شکاری ہیلی کاپٹروں پر سوار ہو کر یہ میدان مارنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
مگر بات صرف اونٹ پر رکتی دکھائی نہیں دے رہی۔ ماحولیات سے متعلق امریکی ماہرین کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گائے سالانہ ایک سو کلوگرام میتھین گیس خارج کرتی ہے یعنی اونٹ کے مقابلے میں دوگنی سے بھی زیادہ۔ آسٹریلیا میں گائیوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے، یعنی صرف دو کروڑ سے بھی زیادہ۔
کیا اونٹ کے بعد گلوبل وارمنگ کا اگلا ہدف گائے ہوگی؟