آپ ایک ایسی دنیا کا تصور کریں جہاں تقریباً ہر ایک کی نگرانی جا سکتی ہو اور ہر چیز کو ایسے کیمروں کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہو جو چین کی حکومت سے منسلک ہوں۔
چینی مصنوعات سازوں کی نگرانی سے متعلق طاقت ور ٹیکنالوجی کی تیزی سے ترقی نے کئی لوگوں کے ذہنوں میں خدشات پیدا کر دیے ہیں۔
چینی حکومت کے کنڑول میں چلنے والی ہانگ ژہو ہائیک وژن ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اس وقت دنیا بھر میں کیمروں سے نگرانی کے آلات فراہم کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے کام کرنے والی یہ ٹیکنالوجی دنیا کے ایک سو سے زیادہ ملکوں میں استعمال کی جا رہی ہے۔
دھند، بارش یا اندھیرے میں واضح تصویریں اتارنے والے آلات تیار کرنے والی کمپنی ہائیک وژن کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیکنالوجی اتنی ترقی یافتہ ہے کہ وہ نہ صرف گاڑی پر لگی نمبر پلیٹ کو واضح طور پر سامنے لاسکتی ہے بلکہ آپ یہ بھی دیکھ دیکھ سکتے ہیں کہ آیا ڈرائیور گاڑی چلاتے ہوئے ٹیکسٹ تو نہیں کر رہا۔
امریکہ میں نگرانی کا یہ نظام آپ کو جیل خانوں سے لے کر، ہوائی اڈوں، اسکولوں، حساس مقامات حتی کہ گھروں تک میں نظر آئے گا۔یہ کیمرے کابل میں امریکی سفارت خانے میں بھی نصب کیے گئے تھے، لیکن بعد ازاں اس سال ستمبر میں انہیں ہٹا دیا گیا۔
سائیبر سیکیورٹی اور بین الاقوامی امور کے ایک ماہر اسٹیفن برین کہتے ہیں ہائیک وژن کے کیمرے سفارت خانے میں لگانا بہت بڑی غلطی تھی اور اس طرح کی غلطی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔
فلوریڈا میں ویڈیو نگرانی کے آلات تیار کرنے والی ایک کمپنی کے ایک سابق عہدے دار نے حال ہی میں امریکی حکومت کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہائیک وژن کے کیمرے اپنی معلومات چین بھیج رہے ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ اس کمپنی کے آلات کو جب انٹرنیٹ سے جوڑا جاتا ہے تو دہ چین میں موجود تین سرورز کو ڈیٹا بھیجنا شروع کر دیتے ہیں ۔ چین کی حکومت کسی بھی کیمرے کے نظام سے کسی بھی وقت ، جب چاہے منسلک ہو سکتی ہے۔
سیکیورٹی سے متعلق ایک سابق عہدے دار فرینک فشر مین کہتے ہیں کہ اس کمپنی کے آلات اس نوعیت کے ہیں کہ اگر ان کا پاس ورڈ تبدیل کر دیا جائے اور ڈیٹا کی ترسیل روکنے کے لیے فائر وال بھی لگا دی جائے، آلات کا پوشیدہ نظام خفیہ طریقوں سے ڈیٹا کی منتقلی جاری رکھتا ہے۔
لیکن ویڈیو نگرانی کے آلات کے ایک جریدے آئی وی پی ایم کے صدر جان ہونووچ کا کہنا ہے کہ ابھی تک کوئی ایسا ثبوت سامنے نہیں آیا کہ چین کے کیمرے ڈیٹا خفیہ طریقے سے اپنے ملک منتقل کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں سینکڑوں کمپنیاں نگرانی کے آلات بنا رہی ہیں اور ان میں ایک کمپنی چینی حکومت کی بھی ہے۔
ہائیک وژن کمپنی 2001 میں قائم ہوئی تھی۔ اسےبنیادی طور پر چینی حکومت کے ادارہ تحقیق نے بنایا تھا۔اس کمپنی کے 42 فی صد سے زیادہ حصص چینی حکومت کے پاس ہیں۔
2015 میں جب چین کے صدر ژی جن پنگ نے جنوبی شہر ہانگ ژہو کا دورہ کیا تھا تو وہ ہائیک وژن کے صدر دفتر بھی گئے تھے۔ انہوں نے کئی دوسری مشہور کمپنیوں کے مقابلے میں اس کمپنی کے دورے کو ترجیح دی۔
2015 کے شروع میں چین کے سرکاری ترقیاتی بینک نے ہائیک وژن کو تقریباً تین ارب ڈالر کا قرضہ جاری کیا جس پر سود کی شرح بہت کم تھی۔ اس طرح کے قرضے دوسری کمپنیوں کو کم کم ہی دیے جاتے ہیں۔
اپریل میں نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں اس سے ملتے جلتے ایک خطرے کی نشان دہی کی تھی۔اور وہ تھا ڈرون بنانے والی ایک چینی کمپنی ڈی جے آئی۔
یہ دنیا بھر میں چھوٹے سائز کے ڈرون بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمپنی اپنے صارفین کے لیے استعمال سے متعلق ایک ایگرمنٹ جاری کرتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بعض ملکوں میں آپ کے پرواز کے ریکارڈ کی نگرانی کا جاسکتی ہے اور مقامی قوانین کے مطابق اسے وہاں کے سرکاری عہدے داروں کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔
برطانیہ میں جہاں بڑی تعداد میں ہائیک وژن کے کیمرے نصب ہیں، تشویش محسوس کی جانے لگی ہے۔
لیکں ہائیک وژن کے امریکہ اور کینیڈا کے صدرجیفری ہی ان خدشات کو بے بنیاد اور غلط فہمی پر مبنی قرار دیتے ہیں۔
ہائیک وژن کی مرکزی چین میں 35 اور بیرونی ملکوں میں 21 شاخیں ہیں اور اس کے ملازموں کی تعداد 18 ہزار سے زیادہ ہے۔