کیمرون کا کہنا ہے کہ اس نے دہشت گرد تنظیم بوکو حرام کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیشِ نظر، نائیجیریا سے متصل اپنی شمالی سرحد پر بچوں اور اساتذہ کی حفاظت کے پیش نظر 60 سے زیادہ اسکول دوبارہ بند کر دیے ہیں۔
وسط افریقی ملک کیمرون نے اپنے گھروں سے دور زندگی گزارنے پر مجبور ہونے والے بچوں کو پڑھانے کے لیے محفوظ مقامات پر فوجی اہل کار تعینات کیے ہیں۔
فوج نے دہشت گرد گروپ بوکوحرام کی قوت پر کاری ضربیں لگائی ہیں، جس کے بعد سے یہ تنظیم اپنے اہداف پر خودکش حملوں سے کام لے رہی ہے۔ اور بڑے حملے کرنے کے قابل نہیں رہی۔
نائیجیریا کے ساتھ کیمرون کی شمالی سرحد پر، پرائمری تعلیم سے متعلق ایک عہدے دار عثمانو گارگا کا کہنا ہے کہ بوکو حرام کے حالیہ حملوں سے بہت سے اسکول غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔
گارگا کا کہنا تھا کہ 62 اسکول بند کر دیے گئے ہیں۔ ان بچوں کو یا تو ان کے گاؤں سے بہت دور تعلیم دی جا رہی ہے یا پھر وہ اپنی پڑھائی کو خیرباد کہہ گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 34 ہزار بچوں کو اندرون ملک بے گھر ہونے والے بچوں کے طور پر رجسٹر کیا گیا ہے۔ گارگا نے بتایا کہ ان کے ادارے کے پاس رجسٹر ہونے والوں میں مقامی اور پناہ گزیں، دونوں کمیونٹیز کے بچے شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ علاقوں کے اسکولوں کے اساتذہ اور اور طالب علم محفوظ مقامات پر چلے گئے ہیں۔
اس جنوری سے، کیمرون کی فوج نے بوکو حرام کی جانب سے ہر ہفتے کم از کم تین حملوں کی اطلاعات دی ہیں۔ فوج کا کہنا ہے کہ یہ گروپ زیادہ تر خودکش حملوں کے لیے خواتین اور بچوں کو استعمال کررہا ہے۔ فوج نے بتایا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران دہشت گرد گروپ نے 13 اسکولوں کو نذر آتش کیا ہے اور کم از کم 200 افراد کو یرغمال اور نامعلوم تعداد میں لوگوں کو اغوا کیا ہے۔
غیر سرکاری تنظیموں، انسانی حقوق اور انسانی فلاح و بہبود کا کام کرنے والے گروپوں نے بوکو حرام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حکومتوں کے درمیان اسکولوں کے محفوظ اعلامیہ کا احترام کریں۔ غیر سرکاری تنظیم، اسکول فرسٹ سے منسلک ڈیزائر فوڈا کہتی ہیں کہ اس اعلامیہ کا اطلاق ہونا چاہیے تا کہ بچوں کے لیے تعلیم کا محفوظ حصول یقینی بنایا جا سکے۔
دہشت گرد تنظیم بوکو حرام، گزشتہ 11 برسوں سے شمال مشرقی نائیجریا میں ایک اسلامی خلافت کے قیام کیلئے سرگرم ہے۔ یہ لڑائی اب کیمرون، چاڈ، نائجر، اور بینن تک پھیل چکی ہے، اور قتل و غارت گری، اغوا، مساجد اور گرجا گھروں اور بازاروں اور اسکولوں کو آگ لگانے جیسی سرگرمیاں تواتر سے ہو رہی ہیں۔