فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے گزشتہ ماہ اسرائیل پر غیر متوقع حملے اور جواب میں اسرائیلی فورسز کی غزہ میں جنگ کے باوجود اب بھی یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دو ریاستی حل ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام کے لیے گزشتہ تین دہائیوں سے مغربی ممالک اور بین الاقوامی برادری دو ریاستی حل پر زور دے رہے ہیں۔ اس حل کے تحت ایک ریاست اسرائیل اور ایک فلسطین ہوگی۔
گزشتہ ماہ سات اکتوبر کوحماس کے اسرائیل پر حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ لگ بھگ 240 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔اس حملے کے بعد اسرائیل نے اعلان جنگ کرتے ہوئے غزہ پر چڑھائی کر دی تھی۔ سات اکتوبر سے مسلسل جاری جنگ اور بمباری میں اب تک حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 11 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل کی تل ابیب یونیورسٹی سے وابستہ سیاسی امور کے تجزیہ کار ارئیل ابلوف اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ دونوں جانب سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان کے باوجود قیامِ امن ناممکن نہیں ہے۔
ان کے بقول، دونوں جانب یہ امکانات موجود ہیں کہ یہ تنازع اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی اکثریت کے درمیان نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ انتہا پسند رہنما ان میں شامل نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ارئیل ابلوف نے کہا کہ ایک جانب آپ کو حماس نظر آتی ہے جس سے آپ فوج کے ذریعے سامنا کر رہے ہیں تو دوسری جانب بن یامین نیتن یاہو اور ان کے اتحادی ہیں جن سے سیاسی طریقے سے سامنا کیا جاتا ہے۔ البتہ یہاں ایک بہت بڑا سوالیہ نشان موجود ہے۔ لیکن پھر بھی حل کے مواقع موجود ہیں۔
امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم عرب گلف اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ حسین یوسف کمال آیبش کا بھی خیال ہے کہ کئی دہائیوں سے جاری تنازع کا خاتمہ دو ریاستی حل کے ہی ذریعے ممکن ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ایسا مختلف مراحل میں ہو۔ لیکن دو ریاستی حل ایک مشترکہ ہدف ہے۔ اور اس کا خاکہ ابتدا سے ہی پیش کر دیا گیا تھا۔
ان کے خیال میں دو ریاستی حل کے لیے ابتدائی اقدامات کی مخصوص شرائط ہیں۔ اسرائیل کو لازماََ حتمی اور سرکاری طور پر فلسطینیوں کی ریاست کے قیام کے حق کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہودیوں کی آبادی کاری کے لیے فلسطینیوں کے علاقوں میں غیر قانونی بستیوں کے قیام اور تعمیرات کو روکنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کو حماس کے سات اکتوبر کے حملوں کی مذمت اور مخاصمت ختم کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کو سیاسی طور پر مزید مضبوط کرنا ہو گا۔
قابلِ عمل منصوبہ یا بس ایک خیال؟
کچھ تجزیہ کار دو ریاستی حل کو قابلِ عمل منصوبہ تصور نہیں کرتے۔ امریکہ میں قائم براؤن یونیورسٹی کے ہولوکاسٹ اور نسل کشی سے متعلق مطالعے کے انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر عمر برتوف کہتے ہیں کہ دو ریاستی حل ایک ناقابلِ عمل تصور یا کہاوت ہے۔
ان کے مطابق لوگ دو ریاستی حل کے بارے میں بات کرتے ہیں کیوں کہ ان کو کسی بھی موضوع پر بات کرنا ہوتی ہے اور اس وقت میز پر بس یہی منصوبہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ صرف فلسطینیوں کو فلسطینی ریاست میں رہنے کا حق ہوگا جب کہ صرف یہودی اسرائیل میں رہیں گے۔
پروفیسر عمر برتوف کے خیال میں دو ریاستی حل حقیقت پر مبنی نہیں ہے کیوں کہ اس سے معاشی طور پر ایک کمزور فلسطین قائم ہوگا جس کا دار و مدار اسرائیل پر ہوگا۔
اس کے ساتھ انہوں نے ایک اور مسئلے کی بھی نشان دہی کی ہے جو مغربی کنارے میں آباد یہودی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ لگ بھگ ساڑھے سات لاکھ یہودی مغربی کنارے میں قائم یہودی بستیوں میں آباد ہیں اور ان علاقوں سے ان کا انخلا کرانے کا مطلب ہے کہ یہاں خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔
ان کے بقول اسرائیل میں بھی لگ بھگ 20 لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔
یاد رہے کہ اسرائیل 1967 میں لڑی گئی چھ روزہ جنگ میں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قابض ہو گیا تھا۔ قبل ازیں ان علاقوں پر اردن کی عمل داری تھی۔
اسی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے غزہ پر بھی قبضہ کر لیا تھا جہاں مصر کی عمل داری تھی۔ البتہ اسرائیل نے 2005 میں اپنی افواج غزہ سے نکال لی تھیں۔
پروفیسر عمر برتوف کے مطابق اسرائیل فلسطینیوں کے تنازع کے حل کا ایک اور راستہ مشترکہ ریاست یا کنفیڈریشن کا قیام ہے جس کا ایک عمومی دارالحکومت یروشلم ہو سکتا ہے اور مشترکہ ریاست 1967 کی جنگ سے قبل کی سرحدوں کے اندر ہو۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایسا حل نہیں جس پر فوری طور پر عمل ہو جائے گا۔ لیکن اس کے امکانات کے بارے میں جائزہ لینا چاہیے۔
ان کے بقول، مشترکہ ریاست کے قیام سے اُن فلسطینی مہاجرین کو واپس آنے کا موقع ملے گا جن کی پچھلی نسلوں کو 1948 میں بعض علاقوں سے انخلا کرنا پڑا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پروفیسر عمر برتوف کےبقول مشترکہ ریاست میں شہریت اور اقامت یا قیام کے حق میں فرق ہو سکتا ہے۔ یہودی فلسطینی ریاست میں رہ سکیں گے البتہ انہیں مقامی قوانین کی پاسداری کرنا ہوگی۔ اسی طرح جلا وطن فلسطینی واپس آ سکتے ہیں جیسے وہ اسرائیلی شہر حیفا جا سکیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال میں ایک ریاستی حل ایک پاگل پن لگتا ہے۔ ان کے بقول مسلسل تشدد اسرائیلی معاشرے سے جمہوریت کے خاتمے کا سبب ہو سکتا ہے جب کہ معاشرے میں آمرانہ اور نسل پرستانہ عناصر کو بھی ابھرنے کا موقع مل سکتا ہے۔
امریکہ کا کردار اہم ہے
واشنگٹن ڈی سی میں قائم عرب گلف اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ حسین یوسف کمال آیبش کہتے ہیں کہ تنازع کے کسی بھی حل میں امریکہ کی شمولیت انتہائی اہم ہوگی۔
ان کے بقول امریکہ وہ واحد غیر ملکی طاقت ہے جس کے پاس اثر و رسوخ اور طاقت ہے جو کہ قیامِ امن کے معاہدے کی ضمانت ہو سکتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے امریکہ کی داخلی سیاست کی وجہ سے اس کے کردار کو اس قدر اہم نہیں سمجھا جاتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل پر سنجیدگی کے ساتھ دباؤ ڈالنے کی سیاسی قیمت بہت زیادہ ہے۔
اسرائیل کی تل ابیب یونیورسٹی سے وابستہ سیاسی امور کے تجزیہ کار ارئیل ابلوف کے مطابق صدر جو بائیڈن کو لازمی طور پر آگے بڑھ کر اقدامات کرنے چاہیئں۔
ان کے بقول صدر جو بائیڈن اسرائیل کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس کی بھر پور حمایت کریں گے۔ جب کہ ایران اور حزب اللہ کے خدشات کے معاملے پر ان کو حفاظت کی ضمانت دیں گے۔ اس کے ساتھ جو بائیڈن کو عہد کرنا ہو گا کہ امریکہ فلسطینیوں میں جمہوریت کی ترویج کے لیے مالی مدد کرے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اسرائیل اس منصوبے سے اتفاق نہیں کرتا تو پھر امریکہ کو اسے دھمکی دینی چاہیے کہ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں اسرائیل کے خلاف قرار دادوں پر امریکہ اپنے ویٹو کا اختیار استعمال نہیں کرے گا۔
براؤن یونیورسٹی کے ہولوکاسٹ اور نسل کشی سے متعلق انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر عمر برتوف بھی اتفاق کرتے ہیں کہ کوئی بھی منصوبہ امریکہ کی شمولیت کے بغیر قابلِ عمل نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ اسرائیل کا سیاسی اور فوجی تعاون کے حوالے سے امریکہ پر کافی دار ومدار ہے۔
وہ یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ اس کے بغیر مسلسل جاری ہلاکت خیز تنازع کا ڈراؤنہ خواب برقرار رہے گا۔
ان کے بقول یہ یہودیوں اور فلسطینیوں دونوں کے لیے ایک جیسا ہی خواب ہے۔ کئی لوگ یہ امید کرتے ہیں کہ ایک دن صبح وہ اٹھیں گے اور دیکھیں گے دوسری جانب مکمل طور پر غائب ہو چکی ہوگی۔ لیکن کوئی کہیں بھی نہیں جا رہا۔ سب یہیں موجود ہیں۔ ایک دوسرے کی زندگی کو مشکل بنایا جا رہا ہے اور خوف کے سائے میں زندگی گزاری جا رہی ہے۔
یہ وائس آف امریکہ کے لیےمارکو پورٹک کی تحریر ہے۔